biography of holy prophet

نبی ﷺ واقعہ فیل کے پچاس دن بعد موسم بہار اپریل571ء میں9 ربیع الاول کو مکہ میں سو ق اللیل کے محلہ میں شعب بنی ہاشم میں عبد المطلب کے گھرپیدا ہوئے آپ کے دادا عبد المطلب (جن کا اصل نام عامر اور لقب شیبہ تھا ) نے ساتویں دن عقیقہ کیا اور آپؐ کا نام محمد رکھا۔ صفر کے آخر میں نبیؐ کی بیماری زینب بنت جحش ؓ کے گھر سے شروع ہوئی اور ازواج مطہرات سے آخری میٹنگ میمونہ کے گھر ہوئی جس میں حضرت عائشہ ؓ کے گھر رہنے کا فیصلہ ہوا۔جب آپؐ کا انتقال ہوا تو اس وقت حضرت ابو بکر ؓ سنح مقام پر تھے، آپؐ کو غسل حضرت علی ؓ نے دیا تھا جبکہ لحد ابو طلحہ انصاری ؓ نے تیار کی تھی۔ آپؐ سوموار کو فوت ہوئے اور بدھ کو حجرہ عائشہ میں دفنائے گئے تھے۔آپؐ نے تجارت کی غرض سے شام، بصری اوریمن کے سفر کئے۔ شمسی حساب سے آپؐ کی عمر مبارک 61 سال 2 ماہ24 دن تھی جبکہ قمری حساب سے 63 سال 4 دن تھی۔

ابرہہ صباح حبشی نے(جو نجاشی بادشاہ کی طرف سے یمن کا گورنر تھا )جب دیکھا کہ اہل عرب خانہ کعبہ کا حج کرتے ہیں تو صنعاء میں ایک بہت بڑا کلیسا تعمیر کیا اور چاہا کہ اب خانہ کعبہ کی بجائے یہاں حج ہو، تو بنو کنانہ کے ایک آدمی کو خبر ہوئی تو اس نے رات کو کلیسا میں گھس کر پائخانہ کر دیا، جب ابرہہ کو پتہ چلا تو اس کو غصہ آیا اس نے بدلہ میں خانہ کعبہ کو گرانے کا پروگرام بنایا جس کے لئے وہ ساٹھ ہزار کا لشکر جرار لے کر روانہ ہو پڑا۔اس لشکر میں کل نو یا تیرہ ہاتھی تھے، جب یہ قافلہ مزدلفہ اور منی کے درمیان وادی محسر پہنچا تو چڑیوں کا جھنڈ آیااس نے اس پر کنکریاں گرائیں۔یہ واقعہ فروری کے آخر یا مارچ کے شروع میں571ء کو آپؐ کی پیدائش سے 50دن پہلے پیش آیا تھا۔

پہلی دفعہ جب شق صدر کا واقعہ پیش آیاتو اس وقت آپؐ کی عمر ابھی پانچ سال تھی اور آپؐ اس وقت اپنی رضاعی ماں کے پاس تھے۔پھر معراج کے وقت شق صدر کا واقعہ پیش آیا تھا جو کہ مشہور ہے۔اس طرح واقعہ شق صدر2دفعہ پیش آیا۔

وہ لڑائی جو محرم کے مہینہ میں مکہ میں ایک طرف قریش، بنو کنانہ اوردوسری طرف بنو ہوازن، قیس عیلان کے درمیان ہوئی تھی اس وقت مشہور قول کے مطابق آپؐ کی عمر 15 برس تھی اور قریش کا کمانڈر حرب بن امیہ تھا، آپؐ نے اس میں شرکت کی تھی اور اپنے چچاووں کو تیر اٹھا کر پکڑاتے تھے۔

پھر اس جنگ کے بعد ذوالقعدہ میں حلف الفضول کا معاہدہ نبیؐ کے چچا حضرت زبیر کی تحریک پر پیش آیا۔جو کہ عبد اللہ بن جدعان تیمی کے گھر ہوا تھا۔اس میں قریش کے چند قبائل بنی ہاشم، بنی مطلب، بنی اسد بن عبد العزی، بنی زہرہ بن کلاب، بنی تیم بن مرہ وغیرہ نے شرکت کی تھی، اس معاہدہ میں یہ عہد وپیمان کیا کہ مکہ میں جو بھی مظلوم نظرآئے گا خواہ مکہ میں رہنے والا ہو یا کسی اور جگہ کا تو سب اس کی مدد اور حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں گے، مسافروں کی حفاظت اور غریب کی مدد کی جائے گی۔ اس معاہد ہ  میں چونکہ اکثر فضل نامی اشخاص تھے جس کی وجہ سے اس معاہدہ کا نام حلف الفضول پڑ گیا۔

آپؐ کی عمر مبارک کا پینتسواں سال تھا کہ قریش مکہ نے کعبہ کی تعمیر شروع کی تو جب دیوار سطح زمین سے اتنی بلند ہوئی کہ اب حجر اسود کو رکھنے کی باری آئی تواس کے رکھنے کی وجہ سے جھگڑا شروع ہوا، ہر قبیلہ یہ اعزاز اپنے نام کرنا چاہتا تھا مگر آپؐ کے فیصلے سے یہ جھگڑا ختم کیا گیا

ٓپؐ جب اپنی عمر کے چالیسویں سال کو پہنچے تو اکثر تنہائی میں غوروفکر کے لئے غار حراء میں راشن لے کر چلے جاتے تھے اور کئی کئی دن وہاں قیام کرتے تھے، یہ پہاڑ مکہ میں اس وقت آپؐ کے گھر سے تقریباً تین میل کے فاصلے پر تھا۔آپؐ کو رمضان المبارک کی21 تاریخ بروز سوموار/ جولائی کے آخر میں یاشروع اگست 610ء کو جبل نور کے پہاڑ غار حراء پرنبوت ملی تھی اس وقت آپ کی عمر قمری حساب سے چالیس سال چھ ماہ بارہ دن اور شمسی حساب سے39 سال تین مہینے22 دن تھی۔اور ہجرت کے وقت آپؐ نے غار ثور میں پنا ہ لی تھی اور وہاں تین دن قیام فرمایا تھا۔غار ثورمکہ سے پانچ میل کے فاصلے پر تھا۔

نبوت کے پانچویں سال کچھ مہینوں کے لئے حضرت ارقم بن ارقم ؓ مخزومی کے مکان کو مرکز اسلام بنایا گیا تھا جو مکہ میں عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل صفاء پہاڑ پر واقع تھا۔حضرت حمزہؓ اور عمر ؓ  نے اسلام اسی گھر میں آکر قبول کیا تھا۔  

نبوت ملنے کے تقریبا ًتین سال بعد جب اللہ تعالی نے قرآن مجید کی آیت”وانذرعشیرتک الاقربین” کو نازل کیا تو آپؐ نے مکہ کے پہاڑ صفاء پر چڑھ کرقبائل قریش کو آواز لگائی اور سب کو جمع کر کے کلمہ توحید ان کے سامنے پیش کیا، اس وقت آپؐ کے چچا ابو لہب نے کھل کر بغاوت کی۔اور اس اعلانیہ تبلیغ کے بعد کلمہ پڑھنے والوں کی آزمائش کا وقت شروع ہو گیا۔جس میں حضرت بلالؓ، حضرت عمار بن یاسرؓ اور ان کے خاندان کو، حضرت خباب بن ارتؓ، حضرت فکیہہؓ، زنیرہ اور نہدیہؓ وغیرہ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

پہلی ہجرت حبشہ نبوت کے پانچویں سال رجب کے مہینہ میں ہوئی یہ قافلہ وہاں شعبان اور رمضان کے مہینہ ٹھہرا پھر شوال میں  واپس آگیا اور دوسری نبوت کے ساتویں سال ہوئی تھی۔پہلی ہجرت حبشہ میں12 مرد اور 4 عورتیں تھیں اور دوسری میں83 مرد اور 18 عورتیں تھیں۔بعض جگہ لکھا ہے کہ25 عورتیں تھیں۔نیز پہلی ہجرت حبشہ میں جانے کے لئے ہر آدمی کو 5درہم کرایہ دینا پڑا۔مشرکین مکہ کی طرف سے عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ربیعہ نے پیچھا کیا تھا۔

مکہ مکرمہ میں ایک پہاڑ کی گھاٹی کا نام شعب ابی طالب ہے جہاں یکم محرم 7 نبوی بمطابق ستمبر615ء کو حضورؐ اور خاندان بنو ہاشم کو پناہ لینا پڑی سوائے ابو لہب کے۔یہ معاشرتی مقاطعہ (Social Boycott) محرم 10 نبوی تک یعنی تین سال جاری رہا، اس مقاطعت کا معاہدہ منصور بن عکرمہ نے لکھا تھا جس کا ہاتھ بعد میں شل ہو گیا تھا،اور یہ معاہدہ کعبہ میں لٹکادیا گیا۔

قاضی محمدسلیمان منصورپوریؒ اور مولانا مودودیؒ کے بقول 27 رجب کو پیش آیا اور یہ بحالت بیداری میں جسم اور روح سمیت تھا، مکہ مکرمہ میں ام ہانی ؓ کے گھر ( جو شعب ابی طالب میں تھا ) سے آپ کو کعبہ میں لایا گیا پھر وہاں سے براق سواری پر سوار کر کے بیت المقدس میں لایا گیا اور اس کے بعد وہاں انبیاء کو امامت کرائی اور آسمانوں کی طرف چل دیئے تو پہلے آسمان پر حضرت آدم ؑ سے ملاقات ہوئی، دوسرے پر حضرت عیسیؑ اور حضرت یحیؑ سے ملاقات ہوئی، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف ؑ سے ملاقات ہوئی، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس ؑسے ملاقات ہوئی، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون ؑ سے ملاقات ہوئی، چھٹے آسمان پر حضرت موسی ؑ سے ملاقات ہوئی اور حضرت ابراہیم ؑ سے ساتویں آسمان پر ملاقات ہوئی۔  اس کو یاد رکھنے کا فارمولاآعیاھما ہے۔

بیعت عقبہ اولی سے پہلے سال حج کے موقع پر سات خزرج کے لوگوں نے آپؐ سے ملاقات کی پھر بیعت عقبہ اولی میں بارہ افراد انصار کے تھے تو بیعت عقبہ اولی کے بعد آپؑ نے ان کے ساتھ مصعب بن عمیر ؓ  کو بھیجا تھا۔اور پھر بیعت عقبہ ثانیہ میں70 سے زائد مرد تھے اور دو عورتیں نسیبہ بنت کعب (ام عمارہ) اور اسماء (ام عمرو بن عدی)شامل تھیں۔ بیعت عقبہ ثانیہ کی اہم دفعات:1۔ چستی اور سستی ہر حال میں میری بات سنو گے اور مانو گے،2۔ تنگی اور خوشحالی ہر حال میں مال خرچ کرو گے،3۔ بھلائی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے،4۔ اللہ کی راہ میں اٹھ کھڑے ہو گے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہ کرو گے، 5۔ اور جب میں تمہارے پاس آجاوں گا تو میری مدد کرو گے اور جس چیز سے اپنی جان اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہو اس سے میری بھی حفاظت کرو گے۔

بیعت عقبہ کو بیعت النساء بھی کہا جاتا ہے  جبکہ بیعت عقبہ ثانیہ کو بیعت الحرب اور بیعت کبری بھی کہاجاتا ہے۔

ہجرت نبویؐ میں ایک اونٹ پر نبی ؐ اور ابو بکر صدیق ؓ تھے جبکہ دوسرے اونٹ پر عامر بن فہیرہ  (غلام)اور عبد اللہ بن اریقظ (راستہ بتانے والا )تھا،27صفر تیرہ نبوی بارہ اور تیرہ ستمبر 622ء کی درمیانی رات کو مکہ سے حضرت ابو بکر صدیقؓ کے گھر سے ہجرت کا آغاز کیا اور پانچ میل کا سفر طے کر کے غار ثور میں پناہ لی اور یہاں تین دن اور راتیں قیام کرنے کے بعد آگے چل پڑے، 8ربیع الاول /23ستمبر کو قباء پہنچے اور یہاں کلثوم بن ہدم کے گھر ٹھہرے رہے اور مسجد قبا  بنائی ، جمعہ پڑھایا اور پھر 12ربیع الاول کو مدینہ چل دئیے۔

ہجرت مدینہ کے بعد نبی ﷺ نے اسلامی ریاست کی تاسیس کی طرف توجہ دی، اسی لئے کئی قبائل سے معاہدے کئے ان میں سے ایک میثاق مدینہ کا معاہدہ ہے یہ معاہدہ یہود مدینہ کے تینوں قبائل ( بنو قینقاع، بنو نضیر، بنو قریظہ ) اور مہاجرین اورانصار کے لوگوں سے کیا تھا۔ اس معاہدہ کی اہم شرائط یہ ہیں :1۔ فریقین (مسلمان اور یہودی) کو مذہبی آزادی ہو گی، 2۔ یہود اور مسلمانوں کے درمیان صلح رہے گی،3۔ کوئی فریق قریش کو امان نہیں دے گا،4۔ مدینہ پر حملہ کی صورت میں دونو ں فریق مل کر دفاع کریں گے،5۔ مشترکہ جنگ کے مصارف میں یہودی اور مسلمان برابر شریک ہوں گے،6۔ مدینہ کی حدود میں کشت وخون حرام ہو گا اور ہر قبیلہ اپنے محلہ میں قیام امن کا خود ذمہ دار ہو گا،7۔ خون بہا اور فدیہ کا قدیم طریقہ جاری رہے گا،8۔ باہمی جھگڑوں اور اختلافات میں آنحضرت ﷺ کو ثالث مان لیا جائے گا اور آپؐ کا فیصلہ حتمی سمجھا جائے گا، وغیرہ ۔

خطوط نبویﷺ

صلح حدیبیہ کے بعد 7ھ کو خطوط ارسال فرمائے گئے تھے۔

نبی ﷺ نے حاطب بن ابی بلتعہؓ کو خط دے کر مقوقس مصر جریج بن متی کے پاس بھیجا تھا، اس نے اسلام قبول نہیں کیا تھا مگر تحائف(دو لونڈیاں : ماریہ اور سیرین ، اور ایک خچر دلدل نامی) بھیجے تھے۔

دحیہ کلبی ؓ کو ہرقل قیصر(روم کا بادشاہ ) کی طرف خط دے کر روم بھیجا تھا، اسلام قبول نہیں کیا تھا۔

عبد اللہ بن حزام ؓ کو پرویزکسری(ایران کا بادشاہ) کی طرف ایران بھیجا تھا، اس نے خط پھاڑ دیا تھا۔ 

عمرو بن امیہ کو نجاشی اصحمہ(حبشہ کا بادشاہ) کی طرف حبشہ بھیجا تھا ۔

بحرین کے بادشاہ منذر بن ساوی کے پاس علاء بن الحضرمی کو بھیجا تھا۔

یمامہ کے بادشاہ ھذورہ بن علی کے پاس سلیط بن عمرو کو بھیجا تھا ۔

دمشق کے بادشاہ حارث بن ابی شمرغسانی کے پاس شجاع بن وہب کو بھیجا تھا۔

عمان کے بادشاہ جیفر کے پاس عمرو بن العاص ؓ کو بھیجا تھا۔

ٓپﷺ نے جن باشاہوں کی طرف خط لکھے تھے تو ان خطوط کے نتیجہ میں چار لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا۔