تفسیر طبری کا پورا نام”جامع البیان عن تاویل آی القرآن”ہے اس تفسیر کو موصوف نے283ھ میں لکھنا شروع کیا اور سات سال میں مکمل کیا۔ امام طبری ؒ طبرستان میں پید ا ہوئے اور بغداد میں فوت ہوئے، طبری کی وجہ طبرستان کی طرف منسوب ہونا ہے۔اس تفسیر کی نمایاں خصوصیات میں اسانید پر جامعیت کے ساتھ بحث، جرح وتعدیل، اجماعی مسئلہ کو ترجیح، فقہی مسائل کا ذکر، عمرانیات پر بحث، بے مقصد امور سے احتراز، کلام عر ب سے استشہاد، جاہلی اشعار سے استدلال، نحوی مسائل کا ذکر اور علم کلام کا ذکر ہے۔ یہ تفسیر بالماثور کی نمائندہ تفسیر ہے۔ نقلی اور عقلی تفاسیرمیں اس کو اولین مصدر کی حیثیت حاصل ہے، یہ تفسیر تیس جلدوں میں مطبوع ہے۔(امام طبری کے پاس صحابہ اور تابعین کے ذریعہ سے جتنا مواد بھی آیا انہوں نے اس سب مواد کو اس کتاب میں سمو دیا ہے اسی لئے اس کو ام التفاسیر بھی کہا جاتا ہے۔
آپ نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ بغداد گزارا اور آپ پر احناف کا رنگ غالب تھا، علمائے احناف کے نزدیک یہ کتاب فقہی تفسیر کی اہم کتب میں شما ر ہوتی ہے، اس کتاب میں فقہی مسائل کااکثر ذکر ہے، مفسر اس میں حنفیت میں غلو و تعصب کا شکار ہیں، معتزلی عقائد سے موصوف متاثر نظر آتے ہیں۔یہ کتاب حال ہی میں تین جلدوں میں چھپی ہے،یہ حنفی مکتبہ فکر کی نمائندہ تفسیر ہے۔اسی طرح اسی نام کے موافق”احکام القرآن از ابو بکر محمد بن عبد اللہ”کی بھی ہے آپ ابن العربی(468-543ھ) کے نام سے مشہور ومعروف ہیں۔
آپ اسی سال کی عمر میں فوت ہوئے تھے، آپ کا لقب محی السنہ ہے، یہ مصر کے مشہور علماء میں سے تھے، یہ تفسیر اختصار کے ساتھ جامعیت کو محیط ہے جس کے متعلق مفسر خازن لکھتے ہیں کہ معالم التنزیل تفسیر نہایت بلند پایہ اور گراں قدر تفسیر ہے، یہ صحیح اقوال کی جامع، احادیث نبویہ سے آراستہ اور احکام شرعیہ سے پیراستہ ہے، موصوف بغوی اختصار کے پیش نظر اسناد کے بغیر اقوال وآثار ذکر کرتے ہیں اور رواۃ و رجال پر مناسب نقد وجرح بھی کرتے ہیں مگر غیر متعلق اقوال و آثار اور منکر روایات سے احتراز کرتے ہیں۔امام بغوی نحوی مسائل اور قرآء ت کا بھی انتہائی اختصار سے ذکر کرتے ہیں، بہر کیف یہ تفسیر بذات خود نہایت عمدہ، بہت سی کتب تفسیر بالماثور سے افضل و احسن اور ہر طبقہ کے علماء کے ما بین مقبول و متداول ہے۔، اس عربی تفسیر کا اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے ایک ترجمہ مولانا محمد عثمان ؒجو علمی حلقے میں کاشف الہاشمی کے نام سے معروف ہیں اور دوسرا ترجمہ دار العلوم دیوبند کے مفتی مولانا عزیز الرحمن ؒنے کیا تھا۔ یہ تفسیر بالماثور کی نمائندہ تفسیر ہے۔
موصوف عرصہ دراز مکہ میں رہنے کی وجہ سے جار اللہ (اللہ کے پڑوسی) مشہور ہوئے، یہ معتزلہ کی مشہور تفسیرہے کیونکہ موصوف معتزلی تھے۔یہ تفسیر مکہ میں 526 سے لے کر 528ھ تک دو سال میں مکمل ہوئی۔اس میں قرآن کے اسلوب بیان، فصاحت وبلاغت اور ادبی پہلو پر خاص کام کیا گیا ہے۔اس تفسیر میں اسرائیلیات تو نہیں ہیں مگر ضعیف روایات بے شمار ہیں بلکہ موضوع بھی ہیں اکثر مقامات پر مطالب کو سوال وجواب کے پیرائے میں واضح کیا گیا ہے، گرائمر کی باریکیاں، قرآن کی تفسیر قرآن سے، حدیث سے، علم فقہ، علم معانی اور جنات کے وجود کے انکار کا اس میں ذکر ہے،یہ تفسیر بالرائے غیر محمود ہے۔
آپ رے میں پیدا ہوئے اور ہرات میں فوت ہوئے، اس تفسیر کا دامن کلامی مباحث، فلسفہ وریاضی کے مضامین سے لبریز ہے اس میں مباحث اور مسائل کو سوالاً وجواباً بیان کیا گیا ہے، اس میں اہم ترین بات معتزلہ اور ملحدین کے اعتراضات کا رد ہے، امام صاحب تفسیر کو مکمل نہ کر سکے ان کے بعد قاضی شہاب الدین بن خلیل اور شیخ نجم الدین احمد بن محمد نے مکمل کی، امام رازی نے اپنی تفسیر میں کونیات پر بھی خصوصی دلچسپی لی ہے، اس تفسیر کی اہم خصوصیا ت یہ ہیں : انسائیکلوپیڈیا، ربط آیات وسور، رد مذاہب باطلہ، رد فلاسفہ، متکلمانہ انداز، محاکمہ اور اپنی رائے دینا۔ اس تفسیر کا اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے،یہ تفسیر بالرائے جائز ہے۔یہ تفسیر پہلے آٹھ جلدوں میں اور اب تیس جلدوں میں طبع ہوئی ہے۔ اس تفسیر کے متعلق مشہور ہے کہ:”کل فیھا الا التفسیر”
امام موصوف اس تفسیر میں اسباب نزول، اقسام قرآء ت، اور اعراب سے تعرض کرتے ہیں، مگر غریب الفاظ پر روشنی ڈالتے ہیں، موصوف اپنی اس تفسیر میں معتزلہ، قدریہ، شیعہ، فلاسفہ اور غالی صوفیہ کا خوب رد کرتے ہیں، آپ نے احکام والی آیات کی وضاحت میں دلائل وبراہین کی روشنی میں آیات سے مستنبط مسائل اور متعلقہ مسائل کا ذکر کیا ہے موصوف مفسر کا تعلق اگرچہ مالکی مسلک سے ہے مگر آپ میں تعصب بالکل نہیں ہے،یہ فقہی تفسیر ہے۔
علامہ بیضاوی کی تفسیر متوسط الحجم اور تفسیر وتاویل کی جامع ہے، یہ عربی زبان کے قواعد اور اہل السنت کے اصول وضوابط پر مشتمل ہے، موصوف نے ہر سورت کے آخر میں سورت کی فضیلت پر مبنی روایات خواہ صحیح ہوں یا ضعیف کو نقل کیا ہے۔آپ نے تفسیر کبیر اور راغب اصفہانی کی تفسیر سے بھر پور فائدہ اٹھا یا ہے۔آپ قرآء ت اور اسرائیلی روایات کا اپنی تفسیر میں ذکر کرتے ہیں۔اور اس میں قرآن کریم کے مطالب ومعانی اور اس کے رموز واسرار پر عمدہ انداز سے بحث پائی جاتی ہے، یہ تفسیر ایک جلد میں مطبوع ہے، تفسیر بالرائے محمودہے۔
امام موصوف نے اپنی تفسیر کا بیشتر حصہ تفسیر بیضاوی اور کشاف سے اخذ کیا ہے، یہ ایک متوسط القامت تفسیر ہے، مفسر نے اس میں وجو ہ اعراب اور مختلف قرآءتوں کو جمع کیا ہے، اس تفسیر کو تفسیر کشاف کے محاسن کی جامع اور اس کے نقائص سے پاک سمجھا جاتا ہے،فقہی مسائل اور اسرائیلیات کا بھی گاہے بگاہے ذکر موجود ہے، تفسیر بالرائے ہے۔
اس تفسیر میں اسرائیلیات کی بھر مار ہے، اسی طرح تاریخی واقعات اور غزوات النبی ؐ کا مفصل ذکر موجود ہے، فقہی مسائل کا بھی ذکر کرتے ہیں، نیز اس تفسیر میں قصے کہانیاں بھی اکثر پائی جاتی ہے۔یہ تفسیر بالرائے ہے۔
موصوف مصر کے مشہور علماء میں سے تھے، آپ بہت بڑے قاری اور عظیم شاعر و لغوی تھے، اسی طرح گرائمر کے بھی امام تھے، وجوہ اعراب اور نحو کا اس تفسیر میں کثرت سے ذکر ہے، اس تفسیر میں قرآنی بلاغت کا بھی ذکر موجود ہے۔موصوف مفردات کے معانی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اسباب نزول، ناسخ ومنسوخ اورفقہی مسائل وغیرہ کا بھی ذکر کرتے ہیں۔یہ تفسیر آٹھ جلدوں میں مطبوع ہے۔یہ تفسیر بالرائے محمود ہے۔
یہ تفسیر بالماثور ہے اور اس موضوع پر صحیح ترین تفسیر ہے۔اس تفسیر کی اہم خصوصیات یہ ہیں : تفسیر ابن جریر کا خلاصہ ہے اور اس تفسیر کے بعد تفسیر ابن کثیر کو تفسیر بالماثور کی بہترین تفسیر کہا جاتا ہے، تفسیر کے آغاز میں ایک طویل مقدمہ ہے، ربط آیات، اسرائیلیات سے پرہیز اورمناسب انداز میں نقد وجرح، لطائف دقیقہ، غیر ضروری مسائل کی تحقیق کی مذمت، احکام والی آیات سے فقہی مسائل کا استنباط اور وضاحت۔موصوف نے انتہائی آسان پیرائے اور مختصر الفاظ میں تفسیر کی ہے۔یہ تفسیر اصل عربی زبان میں تھی مگر اب اس کے تراجم اردو، انگلش اور دنیا کی مشہور زبانوں میں پائے جاتے ہیں۔علامہ سیوطی ؒ نے تفسیر ابن کثیر کے متعلق فرمایا ہے کہ:”لم یولف علی نمطہ مثلہ”(اس جیسی تفسیر نہیں لکھی گئی)
آپؒ مصر میں پیدا ہوئے تھے، موصوف امام سیوطی کے استاد ہیں۔ ان دونوں مفسرین کا لقب چونکہ جلال الدین تھا جس کی وجہ سے ان استاد شاگرد کی تفسیر کو جلالین کہا جاتا ہے، علامہ محلی نے سورہ کہف سے آخر تک اور سورہ فاتحہ کی تفسیر لکھی تو ان کا انتقال ہو گیا پھر انہی کے اسلوب کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے شاگرد نے باقی تفسیر مکمل کی تھی، یہ تفسیر انتہائی مختصر ہے اکثرو بیشتر تو اس کو تفسیر کی بجائے عربی میں ترجمہ قرآن کا نام دیتے ہیں کیونکہ اس کی تفسیر یا ترجمہ قرآنی الفاظ کے تقریباً برابر ہے۔اردو زبان میں کمالین، جمالین اور فیض الامامین کے ناموں سے تین مختلف ترجمہ وشرحیں مشہور ہیں اور مترجمین وشارحین کا زیادہ تر تعلق دار العلوم دیوبند سے ہے، یہ تفسیر ایک جلد میں مطبوع ہے، یہ تفسیر بالرائے ہے۔
امام سیوطی ؒ اپنی اس تفسیر کا تعارف کرواتے ہوئے خود نقل کرتے ہیں کہ میں نے تفسیر قرآن پر ایک مفصل مستند تفسیر تحریر کی جو کہ چار جلدوں میں مکمل ہوئی اور اس کا نام میں نے ترجمان القرآن منتخب کیا، اس میں میں نے احادیث وآثار کو اسانید سمیت درج کیا تھا جب میں نے محسوس کیا کہ لو گ اب اسانید سے گریز کرتے ہیں اور طوالت سے گبھراتے ہیں تو پھر میں نے ترجمان القرآن کا خلاصہ الدر المنثور کے نام سے تیار کیا اس میں صرف متن روایت پر اکتفاء کیا،یہ تفسیر بالماثور ہے
موصوف کی فقہ الحدیث کے موضوع پر نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار بہت شہرت کی حامل کتاب ہے، امام شوکانی ایک آیت تحریر کرنے کے بعد اس کی نہایت عمدہ تفسیر کرتے ہیں جو عقلاً بھی قابل قبول اور پسندیدہ ہو تی ہے پھر اس کی تفسیر میں علمائے سلف کے اقوال نقل کرتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ اسلاف کی تفاسیر سے اقتباسات بھی پیش کرتے ہیں ان کے یہاں ربط آیات وسور کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے، وہ الفاظ کے لغوی حل کی جانب خصوصی توجہ مبذول کرتے اور آئمہ لغت مثلاً:مبرد، ابو عبید قاسم بن السلام اور فراء کے اقوال ذکر کرتے ہیں۔ اسی طرح قرآء ت سبعہ پر بھی روشنی ڈالتے ہیں، فقہی مذاہب ومسالک کا بھی ذکر کرتے ہیں۔موصوف کی تفسیر میں اکثر جگہ موضوع وضعیف روایات پائی جاتی ہیں۔اس کو زیدی فرقہ کی نمائندہ تفسیر بھی کہا جا سکتا ہے۔آپ کی تفسیر روایت اور درایت کو جمع کرنے والی ہے۔
موصوف عراق کے سرخیل اور منقولات ومعقولات کے عالم تھے، آپ نے 1252ھ سے 1267ھ کے دورانیہ میں اپنی تفسیر کو مرتب کیا، آپ کی تفسیر کوسابقہ کتب تفسیر کا خلاصہ کہا جا سکتا ہے، موصوف فقہی آراء میں جس کو مبنی بر صواب سمجھتے ہیں اسی کو ترجیح دیتے ہیں، علامہ آلوسی علم فلکیات پر بھی مفصل گفتگو نقل کرتے ہیں، موصوف اسرائیلیات اور جھوٹے واقعات کو شدید نقد وجرح کا نشانہ بناتے ہیں اسی طرح مفسر نے ربط آیات اور اسباب نزول کا بھی ذکر کیا ہے، اور ایک ممتاز خوبی اس تفسیر کی یہ ہے کہ اس میں صوفیانہ تفسیر کا اسلوب بھی پایا جاتا ہے، یہ تفسیر بالرائے ہے۔
شیخ طنطاوی عجائب کونیہ اور قدرتی مناظر کے حسن و جمال کے دل دادہ تھے تو اسی مناسبت سے تفسیر میں اس کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے، مفسر نے اس تفسیر میں سب چیزوں کو جمع کر دیا ہے چنانچہ اس میں احکام واخلاق، عجائب قدرت، جدید علوم وفنون موجود ہیں اور بالخصوص اس تفسیر کا موضوع علوم کونیہ ہے۔شیخ طنطاوی لکھتے ہیں کہ750 آیات قرآن میں علوم وفنون کے متعلق ہیں۔
موصوف امام عبدہ اور سید جمال الدین افغانی کے معتقد ہیں سید جمال الدین سے ان کی ملاقات تو نہ ہو سکی البتہ شیخ عبدہ سے تفسیر کے سلسلہ میں خوب فائدہ اٹھا یا اسی لئے ان دونوں استاد شاگرد نے الگ الگ تفسیر کے موضوع پر قلم اٹھایا ہے، آپ تفسیر قرآن کے سلسلہ میں احادیث صحیحہ، اقوال صحابہ وتابعین اور عربی زبان کے اسلوب سے خوب استفادہ کرتے ہیں، شیخ رشید رضا، ان کے استاد شیخ عبدہ جادو کے معاملے میں معتزلہ کے افکار کے قائل تھے کہ جادو کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔اسی طرح رشید رضا نے آپؐ کے معجزات میں قرآن کے علاوہ بقیہ تمام معجزات کا انکار کیا ہے، فقہی مسائل میں موصوف مجتہد نظر آتے ہیں۔یہ تفسیر ابھی سورہ یوسف تک پہنچی تھی کہ موصوف خالق حقیقی کی طرف چل پڑے۔
) علامہ مراغی بھی رشید رضا کی طرح شیخ عبدہ سے بہت متاثر تھے اور انہی کے جدید انداز تفسیر کے مکتب کو اپنایا تھا، آپ نے تفسیر کا آغاز لیکچرز کی صورت میں کیا تھا جو کہ بعد میں کتابی شکل اختیار کر گئی اسی مناسبت سے آپ کی تفسیر کو”الدروس الدینیہ “کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، موصوف کا امتیازی موضوع دین اسلام کے اسرار وحکم ہوتا تھا اور ان پر تفسیر کے ضمن میں خصوصی روشنی ڈالتے تھے۔
آپ مصر کے صوبہ سیوط کے شہر سوشا نامی گاوں میں پیدا ہوئے،یہ تفسیر فارسی میں دس پاروں کی سایہ قرآن کے نام سے چھپی ہے، اس تفسیر میں معاشی، سیاسی اور معاشرتی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے نیز اس میں مستشرقین کے اعتراضات کا جواب بھی دیا گیا ہے یہ تفسیراصل میں عربی زبان میں ہے۔اس تفسیر کی اہم خصوصیات : اختصار وجامعیت، علمی وفکری انداز، سائنسی انداز، جدید طرز تحریر، ادبی انداز، انقلابی و تحریکی انداز، تربیتی انداز، دعوتی طرز فکر وغیرہ۔موصوف کی یہ تفسیر آٹھ جلدوں میں مطبوع ہیں، یہ تفسیر اصل میں عربی زبان میں جیل میں رہ کر لکھی گئی تھی۔
آپ1932ء کو ملک شام میں پیدا ہوئے تھے ، موصوف نے اپنے علاقہ میں زیادہ تعلیم حاصل کی پھر جامعہ ازہر سے تعلیم حاصل کی،آپؒ کی تفسیر سترہ جلدوں پر محیط ہے، آپؒ نے عنوانات کا تعین کیا، اعراب وترکیب کی وضاحت کی، مفردات کی تشریح کی ، سورتوں کی وجہ تسمیہ و فضائل بیان کئے، فقہی اختلافات پر تفصیلی مباحث درج کئے، دور جدید کے مسائل کا تذکرہ کیا، آیات کا باہمی ربط واضح کیااور اسرائیلیات سے اجتناب وغیرہ کا ذکر ہے۔