Famous Islamic and Religious Scholars

مشہور اسلامی علماء و مفکرین کا تعارف

موصوف کا نام جعفر، کنیت ابو عبد اللہ اور لقب صادق وصابر ہے، موصوف 17 ربیع الاول 80 ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے اور مدینہ میں ہی 68 سال کی عمر میں 148ھ کو فوت ہو گئے۔آپ ؒ باپ کی طرف سے حضرت علی ؓ کے پڑپوتے زین العابدین علی بن حسین کے بیٹے محمد باقر کے بیٹے تھے اور ماں کی طرف سے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے پوتے قاسم بن محمد کی بیٹی فاطمہ کے بیٹے تھے، آپ ؒ کی صدق بیانی کی وجہ سے صادق کا لقب ملا، آپ نے اپنے نانا قاسم اور دادا زین العابدین کی صحبت میں رہ کر بہت کچھ سیکھا۔ آپ ؒ ایک الگ مکتب فکر اور فقہ کے بانی سمجھے جاتے ہیں جو بعد میں فقہ جعفری کے نام سے مشہور ہوئی۔ فقہ جعفری میں مصادر شریعت قرآن، حدیث اور اجماع ہیں لیکن ان کے ہاں احادیث وہی قابل قبول ہیں جو اہل بیت سے مروی ہیں۔ اور اجماع سے مراد ہے علماء کا امام معصوم کے قول پر متفق ہو نا۔

آپ کا نام نعمان بن ثابت ؒہے اور لقب امام اعظم ہے آپ80 ہجری کو عراق کے شہر کوفہ میں پیدا ہوئے اورکوفہ ان دنوں مشہور صحابی حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی وجہ سے فقہی میدان میں شہرت کا حامل تھا، امام صاحب نے اپنے استاد حماد بن ابی سلمہ کی وفات کے بعد 120ھ کو کوفہ کی جامع مسجد سے تدریس کا آغاز کیا۔موصوف نے 25 سال بنو امیہ کے عہد میں اور 18 سال بنو عباس کے عہد میں گزارے، امام موصوف ؒ کو بنو عباس کی حکومت کے دوران ابراہیم ؒ جس نے حاکم وقت کے خلاف خروج کیا تھا اس کی طرفداری کی پاداش میں 146ھ کو قید خانے میں ڈال دیا گیا تھا، اور یہاں قید خانے میں آپ کو حاکم وقت کی طرف سے زہر دلوایا گیا تھا جس کی وجہ سے آپ ؒ جیل میں ہیخلیفہ المنصور کے عہد میں 150ھ کو فوت ہو گئے، آپ کی قبر بغداد میں ہے۔

آپ کی کنیت ابو عبد اللہ تھی۔ آپ کا لقب امام دار الہجرت اور شیخ الکل ہے، موصوف مدینہ منورہ میں 93ھ کو پیدا ہوئے اور86 سال کی عمر میں179ھ کو مدینہ ہی میں فوت ہوئے جنت البقیع میں آپ کی قبر ہے۔موصوف کے آبائو اجداد اصل میں یمن کے رہائشی تھے اور دادا نے وہاں سے ہجرت کر کے مدینہ آکر رہائش اختیار کی، آپ ؒ نے والدہ کی ترغیب سے علم حاصل کرنا شروع کیا اور سترہ برس کی عمر میں تدریس کا آغاز کر دیا، موصوف ؒ کی مدینہ سے اتنی زیادہ محبت تھی کہ کبھی بھی اس کو چھوڑ کر باہر جانا گوارا نہیں کیا۔آپ ؒ جبری طلاق کے قائل نہیں تھے جس کی وجہ سے گورنر نے آپ کو کوڑے لگوائے تھے۔ آپ نے خلیفہ منصور کے کہنے پر ایک حدیث کی کتاب ’’الموطا ‘‘ کے نام سے تحریر کی جس میں 1720کے قریب احادیث موجود ہیں۔

 آپ کا نام محمد بن ادریس ہے۔موصوف کی کنیت ابو عبد اللہ اور لقب ناصر السنہ ہے، امام صاحب150ھ کو غزہ میں پیدا ہوئے، موصوف کی نسبت در اصل ان کے دادا کے دادا کے نام شافع سے شافعی ہے، آپ نے چھوٹی بڑی113 کتب تصنیف کیں جن میں الرسالہ اور الام زیادہ مشہور ہوئیں۔الرسالہ اصول فقہ کی اور الام فقہ الحدیث کی مشہور کتاب ہے۔موصوف اگرچہ پیدائشی اعتبار سے فلسطین کے علاقہ سے تعلق رکھتے تھے مگر تعلیم زیادہ تر مکہ اور مدینہ جا کر حاصل کی، اور پندرہ سال کی عمر میں تدریس کا آغاز شروع کر دیا اور پھر کچھ عرصہ یمن میں سرکاری عہدہ پر کام کیا، آپ نے عراق، مصر، یمن، مکہ وغیرہ میں تدریس کی ا ورآخر میں مصر204ھ کو فوت ہو گئے اور فسطاط میں آپ کی قبر ہے۔

آپ کی کنیت ابو عبد اللہ اور لقب امام اہل السنہ ہے، آپ ربیع الاول164ھ کو بغداد میں پیدا ہوئے اور وہاں ہی 241ھ کو فوت ہو گئے۔آپ ؒ کے دادا کا نام حنبل تھا تو اسی سے یہ مشہور ہیں، آپ ؒ کی عمر تین برس تھی تو آپ کے باپ بغداد میں فوت ہوگئے، موصوف نے ابتدائی علم بغداد سے حاصل کیا پھر اعلی تعلیم کے لئے کوفہ، بصرہ، حجاز، یمن اور شام کے سفر کئے۔ عباسی خلیفہ مامون نے اپنے عہد حکومت کے آخری حصے میں معتزلہ کی حمایت شروع کر دی، معتزلہ نے بد قسمتی سے خلق قرآن کا ایک کلامی مسئلہ کھڑا کر دیا تو امام احمد بن حنبل ؒ نے اس مسئلے میں معتزلہ کے موقف کی سخت مخالفت کی جس کی پاداش میں ان کو قید کر دیا گیا۔ کچھ دنوں کے بعد مامون فوت ہو گیا اور معتصم خلیفہ بنا تو اس نے بھی امام صاحب پر بہت سختی کی بالاخر دو سال کے بعد قید سے رہا کر دیا۔ آپ ؒ نے چالیس برس کی عمر میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ موصوف کی قبر بغداد میں ہے۔ آپ کی حدیث کے     موضو ع پر لکھی جانے والی مشہور کتاب”المسند”ہے۔

اہل سنت کے چاروں مذاہب میں سے سب سے کم حنبلی مذہب کو قبول ورواج ملا، ابن تیمیہ ؒ اور ابن قیم ؒ نے اس مذہب کے احیاء کی تحریک چلائی تھی، اٹھارہویں صدی عیسوی میں شیخ محمد بن عبد الوہاب نے اپنی اصلاحی تحریک کے ذریعے اس مذہب کی نشاۃ ثانیہ کے لئے کامیاب کوشش کی جس کے نتیجے میں آل سعود نے اسے سعودی عرب کا سرکاری مذہب بنا دیا۔

موصوف کا نام محمد ہے آپ طوس کے گائوں میں پیدا  ہوئے، غزالی کی نسبت باپ کے پیشہ کی طرف ہے کیونکہ اس کا معنی سوت کاتنے والا ہے اور آپ کے والد محترم یہی کام کرتے تھے، آپ فقہ میں شافعی اور کلام میں اشعری ہیں، آپ نے نیشا پور سے تعلیم حاصل کی اور بغداد میں تدریس کی، آپ نے گیارہ سال خلوت میں گزارے جس کا حال آپ نے المنقذ من ضلال میں درج کیا ہے، مقاصد الفلاسفہ، تہافۃ الفلاسفہ، احیائے علوم الدین  آپ کی بڑی اہم کتب ہیں۔

موصوف شیخ عبد الواحد کے بیٹے تھے آپ14 شوال971ھ بمطابق1564ء کو پیدا ہوئے اور63 سال کی عمر گزار کر 28صفر 1034ھ بمطابق10 دسمبر 1624ء کورحلت فرما گئے۔آپ کا نسب نامہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ سے ملتا ہے، آپ مجدد الف ثانی کے نام سے مشہور تھے، موصوف سرہند میں پیدا ہو ئے تھے، آپ کا ظہور اس زمانے میں ہوا جب بر صغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کا سیاسی اقتدار عروج پر تھا اور اکبر اعظم کی حکومت تھی جو اپنے آپ کو خلیفۃ الاسلام کہتا تھا، نئے دین الٰہی کا اجراء اس نے کیا ہو اتھا تو شیخ احمد سرہندی کو اس سے اپنی تبلیغ کا آغاز کرنا پڑا، موصوف حضرت خواجہ باقی باللہ (1563-1603)کے قائم کردہ سلسلہ نقشبندیہ کے قائل تھے اور باقی باللہ کے مرید بن گئے، حضرت مجدد الف ثانی کی تعلیمات سے عالمگیر اورنگ زیب بہت متاثر تھا اور اس نے آپ کا ساتھ بھی بہت دیا۔اسی دور میں ملا نظام الدین کا مشہور درس نظامی شروع ہوا تھا۔

تقی الدین ابو العباس احمد بن عبد الحلیم حران شہر میں پیدا ہوئے، جب ان کی عمر سات سال ہوئی تو ان کے خاندان کے افراد حران سے دمشق چلے گئے، تو آپ نے دمشق میں علمی نشوو نما پائی اور حنبلی مسلک کے پیرو کار بنے، آپ بہت سی کتب کے مولف ومصنف تھے، ان میں سے آپ کا فتاوی سب سے زیادہ مشہور ہوا۔

آپ کا نام حافظ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن ابی بکر تھا، آپ 691ھ کو دمشق کے علاقہ میں پیدا ہوئے، آپ ابن تیمیہ ؒ کے مشہور شاگردوں میں سے ہیں، آپ چھبیس سال تک ابن تیمیہ ؒ کے ساتھ رہے، آپ کی تصانیف کافی زیادہ ہیں ان میں زیادہ شہرت “زاد المعاد” کو ملی، موصوف کی وفات 33رجب 751ھ کو ہوئی تھی، آپ حنبلی فقہ کے قائل اور پیرو کار تھے۔

مجدد الف ثانی کی وفات کے 80سال بعد حکیم الامت شاہ ولی اللہ4 شوال 1114ھ بمطابق21 فروری1703ء کو ننہیال کے قصبہ پھلت ضلع مظفر نگرمیں پیدا ہوئے۔ موصوف کی ولادت کے وقت آپ کے والد عبد الرحیم کی عمر ساٹھ سال تھی اور والدہ کا نام فخر النساء تھا۔موصوف کی دو شادیاں ہوئی تھیں پہلی اپنے ماموں شیخ عبید اللہ کی بیٹی سے اور دوسری شادی سید ثناء اللہ پانی پتی کی بیٹی سے اور پھر موصوف کے چار بیٹے (شاہ عبد العزیز: یہ شاہ صاحب کے سب سے بڑے بیٹے تھے جو ۱۷۴۶ء کو پیدا ہوئے ان کی عمر سترہ سال تھی جب شاہ ولی اللہ کا انتقال ہو گیا شاہ عبد العزیز کی اولاد میں صرف تین بیٹیاں تھیں ان کی وفات79 سال کی عمر میں ہوئی تو موصوف 17 جولائی 1823ء کو رحلت فرما گئے، شاہ رفیع الدین:یہ شاہ صاحب کے دوسرے بیٹے تھے، آپ کا سب سے اہم کام قرآن مجید کا تحت اللفظ اردو ترجمہ ہے آپ ستر سال کی عمر میں1817ء کو فوت ہو گئے، شاہ عبد القادر: آپ کا اہم کارنامہ قرآن مجید کا بامحاورہ ترجمہ موضح القرآن ہے آپ 63 سال کی عمر میں 1815ء کو فوت ہوئے اور  چوتھے بیٹے شاہ عبد الغنی ہیں )اور ایک بیٹی اسی دوسری بیوی سے ہیں، موصوف کا سب سے بڑا کارنامہ فارسی زبان میں قرآن کا ترجمہ ہے جو 1738ء کو منظر عام پر آیا، اس کے علاوہ فوز الکبیر، تفہیمات الہیہ، حجۃ اللہ البالغہ، شرح تراجم امام بخاری وغیرہ تحریر کیں، آپ ؒ20 اگست 1762ء کو رحلت فرما گئے۔موصوف کی اصلاحی اور تجدیدی تحریک کے اہم نکات واہداف درج ذیل ہیں : ۱۔ اصلاح عقائد اور دعوت الی القرآن، ۲۔ حدیث وسنت کی اشاعت وترویج اور فقہ وحدیث میں تطبیق کی دعوت وسعی، ۳۔ شریعت اسلامی کی مربوط ومدلل ترجمانی اور اسرار و مقاصد حدیث و سنت کی نقاب کشائی، ۴۔ اسلام میں خلافت کے منصب کی تشریح، خلافتِ راشدہ کے خصائص اور اس کا اثبات اور رد رفض، ۵۔ سیاسی انتشار اور حکومت مغلیہ کے دور زوال و اختصار میں شاہ صاحب کا مجاہدانہ وقائدانہ کردار، ۶۔ امت کے مختلف طبقات کا احتساب اور ان کی اصلاح وانقلاب کی دعوت، ۷۔ علمائے راسخین اور مردان کار کی تعلیم وتربیت، جو ان کے بعد اصلاح  امت اور اشاعت دین کا کام جاری رکھیں، ۸۔ فقہ میں معتدل مسلک، ۹۔ تحقیق واجتہاد کا راستہ، ۱۰۔ پورے اسلامی نظام کی تدوین۔

موصوف دارالعلوم دیوبند کے بانی انیسویں صدی کے مشہور مجاہد، متکلم، معلم ومصنف تھے آپ شعبان 1248ھ بمطابق 1832ء کو نانوتہ ضلع سہارن پور میں پیدا ہوئے، موصوف، رشید احمد گنگوہی، حاجی امداد اللہ مہاجر اور احمد علی سہارنپوری کے ہم عصر ہیں اور دہلی میں کام بھی کا فی دیر اکٹھا کیا ہے، نانوتوی صاحب کی شادی 1853ء کو ہوئی ( جنگ آزادی1857ء کو شروع  ہوئی) دہلی میں دیوبند کی ایک مسجد میں30 مئی 1867ء کو مدرسہ عربیہ دیوبند کا آغاز ہوا جو بعد میں دارالعلوم دیوبند کے نام سے مشہور ہوا۔اور اس کے بانی موصوف نانوتوی صاحب ہیں۔شب وروز کی محنت کے بعد موصوف4 جماد ی الاولی1297ھ بمطابق 15 اپریل 1880ء کو ظہر کے وقت فوت ہو گئے اور دارالعلوم میں ہی ان کو دفن کیا گیا۔

موصوف 1832ء کو اپنے ننہیال بانس بریلی میں پیدا ہوئے اور پھر آبائی علاقہ قنوج آکر تربیت پائی، آپ نے علمی میدان میں مہارت حاصل کرنے کے بعد تدریس وتصنیفی کام کا باقاعدہ آغاز کیا اور پہلی شادی کے کچھ عرصہ بعد پھر آپ کی دوسری شادی نواب باقی محمد کی بیوہ ملکہ بھوپال شاہ جہان بیگم سے 1871ء کو ہوئی۔نواب صاحب نے ملکہ کے تعاون سے مملکت میں اہم اصلاحات کیں، نفاذ شریعت،اسلامی علوم کی نشرو اشاعت اور بدعات کے خاتمے کے لئے اہم اقدامات کئے، موصوف کے تخصصات میں قرآن، علوم القرآن، سنت، فقہ الحدیث اور تصوف تھے، آپ نے کم وبیش دو سو سے زائد چھوٹے بڑے رسائل اور اصلاحی وعلمی اور تحقیقی کتابیں تالیف کیں، آپ کا سب سے بڑا کارنامہ علوم کتاب وسنت کی اشاعت ہے۔

آپ دہلی میں پیدا ہوئے، آپ نے دہلی کے آثار قدیمہ پر “آثار الصنادید”(1847ء) تصنیف کی، پھر 1858ء میں معرکۃ الآراء تصنیف”اسباب بغاوت” شائع کی۔ آپ نے پہلا مدرسہ 1859ء میں مراد آباد میں اور دوسرا 1863ء میں غازی پور میں قائم کیا۔ 1853ء کو سائنٹفک سوسائٹی (Scientific Society)کی بنیاد رکھی جس کے ذریعے جدید مغربی علوم کی کتابیں اردو میں ترجمہ کر کے چھاپی جائیں جب موصوف کا تبادلہ علی گڑھ 1864ء کو ہوا تو یہ ادارہ بھی وہاں چلا گیا، 1868ء کو آپ نے ایک رسالہ” تہذیب الاخلاق” کے نام سے تحریر کیا،  آپ نے 1869-70کو انگلینڈ وغیرہ کا سفر کیا،موصوف نے 1877ء کو دار العلوم کی بنیاد رکھی، پھر 1886ء کو محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھی۔

آپ بیسویں صدی کے مشہور شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم شخصیت ہیں، شاعری میں بنیادی رحجان تصوف اور احیائے اسلام کی طرف تھا۔

سیاستدان کی حیثیت سے ان کا سب سے نمایاں کام نظریہ پاکستان کی تشکیل ہے، آپ کے والد کا نام شیخ نور محمد تھا، آپ کاخاندان کشمیر سے آکر سیالکوٹ آباد ہوا، علامہ اقبال نے میٹرک اور ایف اے کی تعلیم اپنے علاقہ میں حاصل کی اور پھر بی اے کے لیے لاہور گورنمنٹ کالج میں آکر داخلہ لیا 1898ء کو بی اے پاس کیا اور پھر 1899 ء کوایم اے فلسفہ پنجاب بھر میں پہلی پوزیشن میں پاس کیا، 1903 ء کو گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے ملازمت کا آغازکیا، پھر 1905ء کو تین سال کی چھٹی لے کر یورپ چلے گئے، آپ نے ابتدا میں انگلینڈ میں جا کر کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لیا پھر جرمنی جاکر میونخ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی پھر جرمنی سے واپس انگلستان جاکربیرسٹری کے امتحانات پاس کیے اور1908ء کو اپنے وطن واپس آگئے اور اپنی وکالت کے ساتھ لاہور میں تدریس کا آغاز کیا۔موصوف کا خطبہ صدارت 30دسمبر 1930ء الہ آباد کا کافی شہرت کا حامل ہے۔آپ کا مزار لا ہو ر بادشاہی مسجد کے باہر ایک کونہ پر ہے۔ موصوف علامہ اقبال کو 1922ء کو لاہور میں ’’سر‘‘ کا خطاب ملا تھا ۔

آپ تھانہ بھون میں پیدا ہوئے اور وہاں سے ابتدا ئی دینی تعلیم حاصل کی، آپ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے بڑے معتقد تھے، آپ کی چھوٹی بڑی آٹھ سو تصانیف ہیں، تفسیر بیان القرآن، بہشتی زیور اور نشر الطیب نے کافی شہرت اختیارکی۔آپ نے تھانہ بھون میں ساری زندگی گزار دی اور وہاں ہی ان کو دفن کیا گیا۔

آپ کراچی میں 25دسمبر 1876ء کو پیدا ہوئے اور 11ستمبر1948ءکو71 سال کی عمر میں فوت ہوئے، موصوف 1913سے لے کر پاکستان کی آزادی تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، محمد علی جناح کے تین بھائی اور تین بہنیں تھیں ان کا اپنے بہن بھائیوں میں دوسرا نمبر تھا، آپ برطانیہ میں پہلی دفعہ 1892میں گئے اور 1895کو برطانیہ میں سب سے کم عمر19سالہ وکیل کہلوائے، واپس آکر کچھ عرصہ کراچی قیام کیا اور پھر بمبئی چلے گئے، آپ کا مزار کراچی میں ہے۔

مولانا1903 ء کو انڈیا کی ریاست حیدر آباد کے علاقہ اورنگ آباد میں پیدا ہوئے اور1979ء کو75سال کی عمر میںنیویارک امریکہ میں فوت ہوگئے آپ مشہور عالم دین، مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی تھے اور بیسویں صدی کے موثر ترین اسلامی مفکر تھے، آپ کی مشہور تفسیر”تفہیم القرآن”ہے آپ کے آباواجداد میں خواجہ قطب الدین مودود چشتی تھے جسکی طرف نسبت کی وجہ سے مودودی کہلوائے، آپ نے مولانا محمد علی جوہر کی خواہش پر”الجہاد فی الاسلام” 24سال کی عمر میں تحریر کی، 1932ء میں حیدرآباد سے رسالہ”ترجمان القرآن”جاری کیا، 1935ء کو”پردہ”کے نام سے کتاب لکھی، 26اگست 1941کو لاہور سے جماعت اسلامی کا باقاعدہ تنظیمی شکل میں آغاز کیا۔مولانا مودودیؒ کا جنازہ لاہور قذافی سٹیڈیم میں ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے پڑھایا تھا۔

آپ البانیہ میں 1914ء کو پیدا ہوئے اور2اکتوبر 1999ء کو85 سال کی عمر میں اردن کے دارالحکومت عمان میں وفات پائی، آپ کی پیدائش سے کچھ ہی عرصہ بعد ان کے والدین کو البانیہ چھوڑ کر دمشق آنا پڑا اور علامہ البانی ؒنے یہاں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ گھڑی ساز کا پیشہ اختیار کیا اور اضافی مطالعہ میں علامہ رشید رضا ؒاور ابن تیمیہؒ کی تحریرات کا خصوصی مطالعہ کیا۔

موصوف نے بالخصوص حدیث کے عنوان پر بہت سی کتب پر تعلیقات اور تخریج وغیرہ کا کام کیا اور تمام عمر دعوتی سرگرمیوں میں بھی مصروف رہے، اس کے لئے انہوں نے دمشق کو دعوتی مرکز بنایا جہاں غالی تصوف، متعصب وجامد فقہی مکاتب فکر اور شعیت کے بطن سے جنم لینے والے نصیری، دروزی اور اسماعیلی جیسے گمراہ و بدعتی فرقوں کا بڑا زور تھا اور صحیح اسلامی عقیدہ رفض وتشیع اور تصوف کی انہیں مختلف گمراہ کن شکلوں اور بدعات وخرافات کے گردوغبا ر میں روپوش تھا ان تمام کی اصلاح پر علامہ البانیؒ نے بہت زور دیا۔

1364ھ تا1367ھ تک تین سال جامعہ اسلامیہ مدینہ میں تدریس حدیث کی، علامہ البانی ؒکے دعوت کے دو مشہور اصول تھے۔1۔تصفیہ (مذہب اسلام کو ہر شک وشبہ سے پاک کیا جائے) 2۔تزکیہ (مسلم نسل کو قرآن وسنت سے ماخوذ کر کے صحیح اسلامی عقائد پر چلنا سیکھایا جائے )

آپ کا نام محی الدین احمد ہے اور آزاد تخلص ہے، آپ کا آبائی وطن دہلی ہے اور مادری وطن مدینہ ہے، موصوف گیارہ نومبر 1888کو مکہ میں پیدا ہوئے تھے، آپ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، آپ کے والد جنگ آزادی کے بعد مکہ رہائش پذیر ہوئے اور پھر 1898کو کلکتہ چلے آئے، موصوف نے ابتدائی تعلیم اپنے والدین سے حاصل کی، آپ نے 1900میں فارسی تعلیم مکمل کی اور 1903کو درس نظامی سے فارغ ہوئے، آپ نے مختلف رسائل وجرائد میں کام کیا، پھر 13جولائی1912 کو اپنا رسالہ”الہلال”نکالا، پھر اس کے بعد 1915کو “البلاغ”نکالا اور اس کے بعد 1921کو “پیغام”رسالہ جاری کیا، آ پ22فروری 1958کو دہلی میں فوت ہوئے، آپ کی اہم تصانیف یہ ہیں : تذکرہ، غبار خاطر، خطبات، جامع الشواہد، مکاتیب، مسئلہ خلافت وجزیرۃ العرب، اسلام اور آزادی وغیرہ۔

آپ فروری 1908کو حیدر آباد دکن کے مذہبی اور علمی خاندان میں مولانا محمد خلیل اللہ کے گھر پیدا ہوئے، موصوف اپنے 8بہن بھائیوں میں سے سب سے چھوٹے تھے، آپ نے ابتدائی تعلیم وتربیت اسی علاقہ میں حاصل کی پھر 1924 تا 1930تک جامعہ عثمانیہ میں ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی، پھر 1932میں بون یونیورسٹی (جرمنی) سے اسلام کے بین الاقوامی قانون پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈی فل کی ڈگری حاصل کی، اس کے بعد سوریوں یونیورسٹی (پیرس) سے عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں اسلامی سفارت کاری پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند پائی، پھر کچھ عرصہ جامعہ عثمانیہ اور جرمنی و پیرس کی جامعات میں تدریس کی، فرانس کے نیشنل سنٹر آف سائنٹیفک ریسرچ سے تقریبا ً بیس سال تک وابستہ رہے۔ڈاکٹر صاحب اردو، فارسی، عربی، ترکی، انگریزی، فرانسیسی، جرمنی اور اطالوی وغیرہ زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔

موصوف نے فرانسیسی زبان میں ترجمہ قرآن کیا اور سیرت کی کتاب دو جلدوں میں تحریر فرمائی، آپ کی دیگر کتب میں سے صحیفہ ہمام بن منبہ، القرآن فی کل لسان، قانون بین الممالک، الوثائق السیاسیہ للعہد النبوی والخلیفۃ الراشدہ، تعارف اسلام Introduction of islam کو رقم کیا، آپ نے 1980ء کو آٹھ تا بیس مارچ تک بارہ دن مختلف عنوانات پر بہاولپور یونیورسٹی میں بارہ لیکچر دئیے جو خطبات بہاولپور کے نام سے مطبوع ہیں۔

آپ13ستمبر 1950کو کاندھلہ مظفر نگر (ہندوستان) میں پیدا ہوئے، موصوف جب چھ یا سات سال کے ہوئے تو  ان کا خاندان کراچی آگیا وہاں پھر موصوف کو بنوری ٹائون مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخل کرا دیا گیا، پھر ان کے والد صاحب راولپنڈی منتقل ہوئے تو آپ نے وہاں مدرسہ تعلیم القرآن میں تعلیم حاصل کی، 1962ء میں عربی کا امتحان پاس کیا اور 1966ء میں درس نظامی مکمل کیا، 1972ء میں عربی زبان میں ایم اے کیا، پھر پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پی ایچ ڈی کی جس کا موضوع شاہ ولی اللہ سے متعلق تھا۔

تعلیم کی تکمیل کے بعد راولپنڈی کے مدرسہ فاروقیہ اور مدرسہ ملیہ میں پڑھایا پھر ادارہ تحقیقات اسلامی میں خدمت انجام دی، اسی طرح کچھ دیر قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں بھی پڑھا یا اور عرصہ دراز بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد میں تدریسی و انتظامی امور سر انجام دئیے، آپ 1987تا 1994تک اسلام آباد فیصل مسجد کے خطیب بھی رہے، موصوف نے کئی کتب و مقالات رقم فرمائے اور عربی سے اردو اور اردو سے عربی میں تراجم کئے مگر ان میں سے بالخصوص آپ کے محاضرات یعنی لیکچرز کو خاصی شہرت ملی جو لاہور سے الفیصل ناشران نے طبع کئے ہیں۔

موصوف ایک ممتاز پاکستانی مسلمان سکالر تھے، آپ انڈیا کے ضلع ہریانہ میں 26اپریل 1932ء کو پیدا ہوئے اور 14اپریل 2010ء کو لاہور میں فوت ہوئے تھے، آپ تنظیم اسلامی کے بانی تھے، جو پاکستان میں نظام خلافت کے قیام کے خواں تھے، تنظیم اسلامی کا مرکزی دفتر لاہور میں موجود ہے۔قیام پاکستان کے بعد آپ لاہور منتقل ہو گئے اور گورنمنٹ کالج سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا، 1954ء کو کنگ ایڈورڈکالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد 1965ء کو جامعہ کراچی سے ایم اے کی سند حاصل کی اور 1971ء تک میڈیکل پریکٹس کی۔

دوران تعلیم آپ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ رہے اور فعال کردار اداء کرتے رہے، تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی، تاہم جماعت کی انتخابی سیاست اور فکری اختلافات کے باعث آپ نے علیحدگی اختیار کر لی اور 1975ء کو تنظیم اسلامی کی بنیا د رکھی، تنظیم اسلامی کی تشکیل کے بعد تمام توانائیاں تحقیق واشاعت اسلام کے لئے وقف کر دیں، آپ نے سو سے زائد کتب تحریر کیں اور کئی ممالک میں لیکچر ز دینے کے لئے بھی جانے کا موقع ملا۔

موصوف یکم جنوری 1928ء کو بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوئے اور 8جولائی 2016کو 88سال کی عمرپا کر کراچی میں فوت ہوئے، 1947 ء کو تقسیم ہندوستان کے بعد آپ کا خاندان ہندوستان چھوڑ کر پاکستان کے علاقہ کراچی میں آکر آباد ہوگیا۔

1951ء میں آپ نے ایک ڈاکٹر کی مددسے چھوٹی سی ڈسپنسری کھولی اورطبی امدادکاسلسلہ شروع کیااوریہیں سے ایدھی فاونڈیشن کا آغازہوگیا اورپھر ابتدا ء میں ایک ایدھی ایمبولینس سے رفاہی کام کا آغازکیا تواب ملک بھر میں تقریبا چھ سوایمبولینس ہیں، ایمبولینس خدمات کے علاوہ ایدھی فاونڈیشن نے کلینک، زچگی گھر، پاگل خانے، مزدوروں کے لیئے گھر، بلڈبنک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کوگود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں اوراسکول کھولے ہیں اس کے علاوہ فاونڈیشن نرسنگ اور گھر داری کے کورس بھی کرواتی ہے۔فاونڈیشن نے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ترقی کی ہے اسلامی دنیا میں ایدھی فاونڈیشن ہر مصیبت اورمشکل وقت میں اہم مدد فراہم کرتی ہے پاکستان کے علاوہ فاونڈیشن جن ممالک میں کام کر رہی ہے ان میں چند نام افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا سوڈان، ایتھوپیا اور قدرتی آفات سے متاثرہ تمام ممالک ہیں۔

”ماجشون” سرخ وسفید رنگت والے کو کہتے ہیں، چہرے کی سرخی کی وجہ سے یہ نام پڑگیا۔ احمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ ان کا لقب ماجشون کیسے پڑگیا تو فرمانے لگے: ایک فارسی کلمہ کی بنا پر، کیونکہ یہ جب بھی کسی آدمی کو ملتے تو کہتے ”شونی شونی: تو ان کا لقب ماجشون پڑگیا۔ ابرہیم الحربی کہتے ہیں ماجشون فارسی کا لفظ اور ان لقب اس وجہ سے پڑا کہ ان کے رخسار سرخ تھے۔

ابن تیمیہ:اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ابن تیمیہ کے دادا جان حج کرنے کے لیے گئے۔ جب وہ ”تیماء” کے مقام پر پہنچے تو ایک خوبصورت چہرے والی بچی کو دیکھا۔ اور جب وہ واپس پہنچے تو ان کی بیوی نے ایک بچہ جنم دیا جو اسی لڑکی سے مشابہت رکھتا تھا تو دیکھتے ہی کہتے لگے: یا تیمیہ! یا تیمیہ! یعنی تشبیہ دی، تو اسی وجہ سے ان کا نام تیمیہ پڑگیا

خلِّکان دو فعلوں خَلِّ (امر از خلی بمعنی ترک) اور کان (ناقصہ) سے مرکب ہے۔ وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اکثر کہا کرتے تھے: ”کان والدی کذا، کان جدی کذا، تو ان کو کہا گیا خَلِّ کانَ (کان والدی، کان جدی۔۔۔ کہنا چھوڑ دو) تو یہ ان کے نام کے ساتھ نتھی ہوگیا۔

ابو یعقوب اسحاق بن ابی الحسن التمیمی محدث بھی تھے اور فقیہ بھی۔ اور ”ابن راھویہ” ان کے والد کا لقب تھا۔ یہ لقب اس وجہ سے پڑا کیونکہ وہ مکہ کے راستہ میں پیدا ہوئے اور راستہ کو فارسی میں راہ کہتے ہیں اور ”ویہ” بمعنی ”وجد” ہے۔

الامام الحافظ زین العابدین عبدالرحمن بن احمدبن عبدالرحمن بن الحسن بن محمد بن ابی البرکات مسعود السلامی البغدادی ثم الدمشقی الحنبلی المشہور ابن رجب ” ابن رجب” ان کے دادا عبدالرحمن کا لقب تھا۔

یہ اس مدرسہ کی طرف نسبت ہے جسے محی الدین ابو المحاسن یوسف بن عبدالرحمن بن علی بن الجوزی المتوفی 656ھ نے بنایا تھا۔ سبب یہ ہے کہ ان کے والد اس مدرسہ کے ”قیم” (مدیر/متولی)تھے۔  (عموماً بعض لوگ جب ابن القیم کا نام لیتے ہیں تو ابن القیم الجوزیہ کہہ دیتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ درست یوں بنے گا ”ابن قیم الجوزیہ” کیونکہ ”قیم” کو عرف حاضر میں ”مدیر” کہا جاتا ہے، تو ابن المدیر المدرسہ کہنا ہرگز درست نہیں، بلکہ ابن مدیر المدرسہ ہی کہا جاسکتا ہے۔)

اسماعیل بن عمر بن کثیر بن ضوء بن کثیر بن درع القرشی بنی حصلۃ سے تعلق رکھتے ہیں اور ”ابن کثیر” اپنے دادا کثیر بن ضوء کی طرف منسوب ہیں۔

ابوبکر محمد بن الحسین بن عبد اللہ  ہیں جو بغداد کی ایک بستی کی طرف منسوب تھے جس کا نام آجر ہے۔

یہ اوزاع کی طرف نسبت ہے اور اوزاع قبیلہ ذی الکلاع کا ایک یمنی خاندان اور ایک قول یہ ہے کہ اوزاع دمشق کی ایک بستی ہے ملک شام میں۔

بیہق کی طرف نسبت ہے جو کہ نیسا پور کی نواحی بستی ہے۔

ابو شجاع ملقب ب عضد الدولۃ۔ یہ ترکی زبان کا لفظ ہے،اس کا معنی ہے: بہادر شیر، الپ بمعنی شجاع اور ارسلان بمعنی شیر۔

جُوین کی طرف نسبت ہے یہ نسیا پور ہی بہت بڑی نواحی بستی ہے۔

دارالقطن بغداد کا ایک محلہ ہے، یہ اس کی طرف نسبت ہے۔

صاحب الکشاف۔ زمخشر کی طرف نسبت، یہ خوارزم کی بہت بڑی بستی ہے۔

ابو سعید عبدالسلام السحنون۔ ”سحنون” دیار مغرب کا ایک فطین پرندہ ہے۔ انھیں بھی ذہانت و فطانت کی بناء پر یہ لقب دیا گیا۔

بصری نحویوں کے امام ہیں۔ ان کا یہ نام اس لیے پڑا کیونکہ ان کے رخسار سیب کی طرح تھے اور انتہائی خوبصورت تھے اور ”سیبویہ” کا معنی ”سیب کی خوشبو” ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انھیں سیب کی خوشبو سونگھنے کا شوق تھا، یہ لفظ سیب اور ویہ کا مرکب ہے۔ تفاح کو فارسی میں سیب اور رائحۃ کو ویہ کہتے ہیں۔

شاطبہ، اندلس کا ایک شہر ہے، یہ اس کی طرف نسبت ہے۔

ابو عمرو عامر بن شرحبیل الشعبی، شَعب کی طرف نسبت ہے ۔یہ ہمدان کا ایک خاندان ہے۔ اور امام جوہری نے کہا ہے کہ یہ ایک چھوٹی سی پہاڑی کی طرف نسبت ہے جو کہ یمن میں ہے۔

محمد بن علی بن محمد بن عبداللہ الشوکانی؛ شوکان کی طرف نسبت ہے جو کہ سجامیہ کی بستیوں میں سے ایک بستی ہے اور یہ صنعاء سے ایک دن کی مسافت پر ہے۔

محمد بن اسماعیل بن صلاح بن محمد بن علی الکحلانی الصنعانی؛ یمن کی ایک بستی ”صنعائی” کی طرف نسبت ہے۔

طبریۃ کی طرف نسبت ہے۔ یاد رہے کہ طبرستان کی طرف نسبت کے لیے لفظ طبری بولا جاتا ہے۔

ابو جعفر محمد بن جریری الطبری صاحب التفسیر المعروف تفسیر ابن جریر؛ یہ طبرستان کی طرف نسبت ہے۔

احمد بن محمد بن سلامۃ بن سلمۃ بن عبدالملک الازدی الطحاوی؛ بستی ”طحا’ کی طرف نسبت ہے جو کہ مصر میں ہے

عُکبَراء کی طرف نسبت ہے اور یہ دریائے دجلہ پر بغداد سے دس فرسخ کے فاصلہ پر ایک چھوٹا سا شہر ہے۔

فاراب کی طرف نسبت ہے جوکہ ترک میں ہے۔

فِرَبر کی طرف منسوب ہے جو کہ جیحون کی طرف ایک شہر ہے۔

ابو محمد الحسین بن مسعود الفراء البغوی۔ خراسان میں مرو اور ھراۃ کے درمیان ایک شہر بغشور ہے، یہ اس کی طرف نسبت ہے۔

فیروز آباد فارس کا ایک شہر ہے، اس کی طرف نسبت ہے۔

ابو الحسن علی بن محمد بن خلف المعافری؛ صاحب الملخص للمؤطا۔ ”قالبس” طرابلس اور سفاقس کے درمیان ایک بستی ہے، انھیں قالبسی اس وجہ سے کہا جاتا تھا کیونکہ ان کے چچا ان کی پگڑی اہل قالبس کی طرح سخت باندھتے تھے ، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ قالبس شہر کی طرف نسبت ہے جو کہ افریقہ میں ہے۔

”قُدُور” ”قِدر” کی جمع ہے اور ہنڈیا بنانا اور بیچنا اس نسبت کی وجہ ہے۔

قسطیلیۃ کی طرف نسبت ہے جو کہ اندلس کا شہر ہے۔

قراء السبعہ میں سے ایک ہیں۔ یہ نام اس وجہ سے پڑا کہ وہ کوفہ گئے اور حمزہ بن حبیب کے پاس آئے اس حال میں کہ امام کسائی نے چادر اوڑھ رکھی تھی تو حمزہ نے کہا کہ کون پڑھے گا تو کہا گیا ”صاحب الکسائ”اور ایک قول کے مطابق انھوں نے”کسائ” (خاص چادر) میں احرام باندھا تو کسائی مشہور ہوگئے۔

محمد بن عبداللہ الحضرمی الکوفی ایک دفعہ گارے میں گر گئے لہٰذا مطین معروف ہوگئے۔