اس حصہ میں تحریکوں اور فرقوں کے بارئے اہم معلومات درج کی گئی ہیں۔
مشہور اسلامی فرقوں میں سے پانچ فرقے ہیں : ۱۔ اہل السنت، ۲۔ معتزلہ، ۳۔ مرجیئہ، ۴۔شیعہ، ۵۔ خوارج۔
اسلامی تاریخ میں پہلا گمراہ فرقہ خوارج کا ہے جو حضرت علی ؓ اور امیر معاویہ ؓ کے دوران ہونے والی36ھ کی جنگ صفین میں معرض وجود پر آئے۔ان کے بانیوں میں سے اشعث بن قیس الکندی، مسعود بن وفد اور زید بن حصین کے نام قابل ذکر ہیں۔ان کے مخصوص عقائد میں سے سب سے زیادہ مشہو ریہ ہے کہ گنا ہ کبیرہ کا مرتکب کافر ہے اسی طرح یہ قبر کے عذاب کے بھی قائل نہیں ہیں، اس فرقہ کو حروریہ بھی کہا جاتا ہے۔
دوسری صدی ہجر ی کے آغاز میں ہشام بن عبد الملک (105-125ھ)کے زمانہ میں جہم بن صفوان جو ارسطو کے نظریہ سے متاثر تھا اس نے اللہ کی صفات کا انکار کیا اور یہی جہمیہ کا بانی ہے، یہ خدا کے لئے جہت، ہاتھ، پائوں، چہرہ، پنڈلی وغیرہ کے ماننے کو شرک قرار دیتا ہے، جہم بن صفوان ملحد اور عیار تھا اپنی عیاریوں کی وجہ سے 128ھ کو قتل کر دیا گیا۔
اسی زمانہ میں واصل بن عطا (80-131ھ)جو امام حسن بصری ؒ کے درس میں بیٹھا تھا اس کا اپنے استاد امام حسن بصری ؒسے گناہ کبیرہ کے مرتکب پر حکم لگانے کے مسئلہ میں اختلاف ہوا تو اس نے علیحدگی اختیار کر لی اور پھر یہی سے معتزلہ فرقہ کا آغاز ہوا اور یہ اس کا بانی ہے۔ واصل بن عطا پریونانی فلسفہ کا رنگ غالب تھا۔معتزلہ کے مزید عقائد میں سے یہ باتیں شامل ہیں کہ اللہ تعالی دیکھتا نہیں ہے، قرآن مخلوق ہے، اللہ اس جہان کے اوپر نہیں، اس کے ساتھ نہ علم ہے اور نہ قدرت، نہ حیات اورنہ ہی سمع، وغیرہ۔معتزلہ کے اصول خمسہ یہ ہیں : ۱۔ توحید، ۲۔ عدل، ۳۔ وعد اور وعید، ۴۔ المنزلۃ بین المنزلتین، ۵۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر۔
(اسلامی تاریخ میں جن لوگوں نے سب سے پہلے اصول دین میں اختلاف کیا وہ جہمیہ اور معتزلہ تھے۔ ان دونوں فرقوں کا اختلاف تین اصولی مسائل میں تھا : ۱۔ دونوں فرقے ذات وصفات باری تعالی میں ارسطو کے ہم نوا تھے جو خدا کو محض ایک تجریدی تصور کے طور پر پیش کرتا ہے۔۲۔ دونوں فرقے وحی کے مقابلہ میں عقل کے تفوق اور برتری کے قائل تھے۔ ۳۔دونوں فرقوں نے تقدیر کے مسئلہ میں مسلمانوں کے مسلمہ عقیدہ سے اختلاف کیا ۔)
یہ فرقہ عقل کو شریعت پر حاکم مانتا ہے۔
شیعوں کا غالی فرقہ ہے، صدیق اکبر ؓ اور فاروق اعظم ؓ جیسے کبار صحابہ کرام کی تکفیر کرتے ہیں۔
شیعہ کا وہ فرقہ جو بارہ اماموں کو مانتے ہیں۔
تقدیر الٰہی کے انکاری تھے اور کہتے تھے کہ انسان اپنی دنیا خود بناتا ہے یعنی اپنے افعال کا خود خالق ہے، اللہ تعالی کو اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔
اس فرقے کا یہ عقیدہ ہے کہ نجات کے لئے عمل ضروری نہیں، صرف خالی خولی ایمان کافی ہے اور بدکاری وبدکرداری سے ایمان کا کچھ نہیں بگڑتا۔