Famous Research Books

اعداد البحث العلمی از ڈاکٹر غازی حسین عنایہ، البحث الادبی از ڈاکٹر شوقی ضیف، تحقیق النصوص ونشرھا از محمد ہارون، کیف تکتب بحثا او رسالۃ از ڈاکٹر احمد شلبی، قواعد تحقیق النصوص از صلاح الدین منجد، کیف تکتب بحثا او منھجیۃ البحث از امیل یعقوب، کیف تکتب بحثا از ڈاکٹر محمد علی خولی وغیرہ۔

تحقیق وتدوین کا طریقہ کا ر از ڈاکٹر خالق ملک داد، اصول تحقیق از ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش، اصول تحقیق از ڈاکٹر عبد الحمید خان عباسی، تحقیقی طریقہ کار از ایس ایم شاہد، تحقیق کا فن از ڈاکٹر گیان چند ،اور راقم الحروف کے انتہائی شفیق استاد ڈاکٹر فیروز الدین شاہ صاحب نے بھی ایک کتاب بنام”کناشہ تحقیق”تحریر کی ہے جو کہ ایم فل ، پی ایچ ڈی اور دیگر تمام محقق اسکالرز کے لئے بہت مفید ہے۔

تحقیق کا پورا کام چونکہ محقق ہی کو انجام دینا ہوتا ہے اور اسے تحقیق کے بنیادی لوازم کا اہتمام کرنا پڑتا ہے ، اس لئے محقق کے لئے کچھ بنیادی لوازم ہیں جنہیں محقق کے اوصاف یا خصائص یا اس کی صلاحیتیں بھی کہتے ہیں ، جو کہ یہ ہیں :

1۔حق گوئی کی صفت سے متصف ہو نا،2۔ غیر متعصب و غیر جانبدار ہونا،3۔ ہٹ دھرم و ضدی نہ ہونا،4۔ تحقیق کو دنیاوی مقاصد کے حصول کا ذریعہ نہ بنانا،5۔دلچسپی اور محنت کی صفت سے مزین ہونا،6۔ فضیلت ِ صبر سے متصف ہونا،7۔ متوازن و معتدل ہونا،8۔ اخلاقی جر ات کا مظاہرہ کرنا ،9۔ وسعت مطالعہ ،10۔ نقاد ہونا ۔

فن تحقیق کے ماہرین  نے محقق طلبہ کی صلاحیتوں کو جانچنے کے لئے درج ذیل دس شرطیں مقرر کر رکھی ہیں  جن پر پورا اترنا ضروری ہے، جو کہ یہ ہیں : 1۔ قوت استدلال ،2۔ جدت،3۔حافظہ،4۔چستی،5۔ صحت،6۔ کاوشی ،7۔ اشتراک ،8۔ اخلاقی رجحان، 9۔تندرستی ،10۔ تحقیق کے لئے شوق اور سرگرمی۔

تحقیق ایک جامع عمل ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف پہلووں پر مشتمل ہے ، چند پہلو ایسے ہیں جو اپنے مقاصد کے لحاظ سے اہم اور قابل توجہ ہیں ، جن کے مقاصد یہ ہیں : 1۔ نظریے کی نشو ونما اور ارتقاء۔2۔ حقائق کو ایک جگہ اکٹھاکرنا ۔3۔تحقیق کا تعلق عملی مسائل سے ہو ۔

خالص تحقیق کا مقصد معلومات کا دائرہ وسیع کرنا ہے ۔ اس عمل میں بہت سے سوالات اور موضوع سے متعلق گوشوں کو بے نقاب کرنے سے تقریبا ًایک نئی دنیا کی تلاش کا کا م پورا ہو جاتا ہے ۔ اور کا م کرنے والا اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے 

اس کا مقصد نتائج کی روشنی میں خالص تحقیق کو پرکھنا ہے ، یہاں صرف معلومات کی حصول یابی ہی منزل نہیں ، بلکہ نتائج کو عملی شکل میں دیکھنا مقصود ہے۔

اس سے مراد ایسی تحقیق ہے جس کا زیادہ تر انحصار کتابوں ، مجلات ، اور انسائیکلو پیڈیاز میں موجود معلومات  ومواد پر ہوتا ہے ۔ محقق لائبریری جاتا ہے، بیسیوں کتابیں اکھٹی کر کے ان کا مطالعہ کرتا ہے اور پھر اپنی تحقیق کو ان مصادر کی طرف منسوب کر کے لکھتا ہے ۔

اس تحقیق کا انحصار مو قع ومحل اور میدان تحقیق پر ہوتا ہے ، معلومات جمع کرنے کے لئے محقق موضوع تحقیق کے موقع  ومحل کی طرف جاتا ہے ، وہ مختلف لوگوں سے ملتا ہے اور ا ن سے معلومات و  بیانات  اکٹھے کرتا ہے ، ان کا انٹرو یوکرتا ہے ، ان سے سوال کرتا ہے ، ان کے اعمال و افعال اور نظریات کا جائزہ لیتا ہے ، آنکھوں سے مشاہدہ کرتا ہے ۔ وغیرہ وغیرہ۔

اس قسم کی تحقیق میں دو شخصیات یا دو ریاستوں ، دو زمانوں ، دو کتابوں ، دو فلسفوں  ، دو طرح کے اسالیب یا ایک نوع کے دو امور کے درمیان موازنہ کیا جاتا ہے ۔  اس موازنے کی دو جہتیں ہوتی ہیں ، ایک جہت مشابہت  اور دوسری جہت اختلاف۔ مگر محقق صرف مشابہت یا صرف اختلاف کے پہلو کو بھی موضوع تحقیق بنا سکتا ہے۔

حقائق و واقعات کا زمانی اعتبار سے ریکارڈز ، جس کا تجزیہ اور توجیہ و توضیح نہیں کی جاتی۔

ان میں انٹر ویوز اور اجلاس کی کاروائی شامل ہوتی ہے جسے فیتے (Tape)کی شکل میں تیار کیا جاتا ہے۔ فوٹو گراف ریکارڈز بھی اسی میں آجاتے ہیں ۔

مآخذ کا اطلاق ان ذرائع پر ہوتا ہے جن سے کسی بھی زیر تحقیق موضوع کی تکمیل کے لئے مواد اخذ کیا جاتا ہے ۔ مآخذ کو مصادر یا منابع یا مراجع بھی کہتے ہیں ۔  مآخذ دو طرح ہوتے ہیں : اولین (بنیادی) اور ثانوی۔

اولین یا بنیادی ماخذ(Primary Sources):عام طور پر تجربے ، ذاتی تفتیش ، انٹرویوز ، سوال نامے ، تحقیقی مقالات ومضامین ، خطوط ، ڈائریاں ، خود نوشتہ سوانح  عمریاں ، متن اور ادب کی تخلیقی تحریریں ، بورڈ ، تحقیقی اداروں ، دانش گاہوں وغیرہ کی روئدادیں ، اخبارات ، مخطوطات  اور فرامین وغیرہ کو بنیادی ماخذ میں شمار کیا جاتا ہے۔

ثانوی ماخذ(Secondary Sources): ثانوی ماخذ میں وہ کتب ، مقالات، یا ریکارڈز شامل ہوتے ہیں جن میں واقعات و حقائق سے متعلقہ معلومات میں شریک ہوئے بغیر اور حقائق کا مشاہدہ کیے بغیر ہی درج کر لیا جاتا ہے ۔ اگر کوئی مصنف کسی دوسرے مصنف کا اقتباس پیش کرتا ہے تو یہ ثانوی مصادر میں شمار ہو گا ۔نصابی کتب ، جنتریاں ، دائرۃ المعارف اور اطلاعات کے ایسے ہی خلاصے ثانوی مصادر شمار ہوتے ہیں ۔

حاشیہ متن سے متعلقہ وضاحتی معلومات ہوتی ہیں جبکہ حوالہ متن کے مآخذ کی اطلاع فراہم کرتا ہے۔واضح رہے کہ آج کل حواشی کا اطلاق ذیلی اشارات (Foot Notes) پر ہوتا ہے۔