یہ امامیہ اثناعشریہ کے گیارہویں امام تھے اور حسن عسکری کے نام سے معروف ہیں، اس تفسیر میں اہل بیت کی فضیلت پر موضوع روایات کو اکثر جگہ درج کیا گیا ہے۔اسی طرح تقیہ کی ضرورت واہمیت کو بھی درج کیا گیا ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ یہ تفسیر شیعی افکار وعقائد کی غلو و مبالٖغہ کی حد تک ترجمانی کرتی ہے۔
یہ تفسیر جمال الدین حسین بن علی بن محمد بن احمد خزاعی کی تالیف ہے، جو ’’ابوالفتوح رازی‘‘ کے لقب سے مشہور ہیں۔ آپ پیغمبر خدا ﷺ کے صحابی ’’نافع بن بُدیل بن ورقاء خزاعی‘‘ کی اولاد سے ہیں، آپ کے دادا نے پہلے ایران کے شہر نیشاپور ہجرت کی اور پھر وہاں سے شہر ری منتقل ہو گئے اور ایرانیوں کے ساتھ معاشرت اور بود و باش اختیار کرنے کی وجہ سے آپ کے خاندان پر فارسی زبان غالب آگئی، یہ تفسیر چھٹی صدی ہجری کے وسط (۵۱۰ -۵۵۶ ھ ق) کے دوران، فارسی (دری) زبان میں لکھی گئی اور یہ فارسی زبان کی پہلی مکمل اور جامع تفسیر ہے، جو شیعہ ذوق کے مطابق لکھی گئی۔ تفسیر کی کتابوں میں اس تفسیر کا بڑا اہم اور رفیع مقام ہے اور بیس ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔
یہ تفسیر، جو ۲۰ جلدوں پر مشتمل ہے اور عربی زبان میں لکھی گئی ہے، عصر حاضر کے عظیم فلسفی اور مفسر قرآن حضرت آیت اللہ علامہ سید محمد حسین طباطبائی ؒ کی تالیف ہے۔ علامہ ۱۳۲۱ھ میں ایران کے شہر تبریز میں پیدا ہوئے اور انہوں نے ۱۴۰۲ ھ ق کو قم مقدس میں رحلت فرمائی۔ آپ کی یہ تفسیر ایک ایسی تفسیر جامع ہے جس میں عقل و درایت کی رُو سے تفسیر قرآن بہ قرآن کی روش کو پیش نظر رکھا ہے، کیونکہ آپ کی نظر میں قرآن کا غیر یہ شائستگی نہیں رکھتا کہ قرآن کی تفسیر کرے اور قرآن جب دوسری تمام چیزوں کے لیے تبیان اور واضح بیان کرنے والا ہے ۱ تو پھر خود اپنے لیے اس کا یہ وصف کیوں نہیں کہ اپنی تفسیر کر سکے۔ نیز اس تفسیر میں علامہ کا ذوق فلسفی نمایاں طور پر مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، اگرچہ علامہ نے تفسیر ترتیبی کا لحاظ رکھتے ہوئے آیات اور سورتوں کی پے در پے تفسیر کی ہے لیکن تفسیر قرآن بہ قرآن کی روش کو اپناتے ہوئے، مورد بحث آیات کی تفسیر کے دوران دوسری متناسب آیات کو بھی زیر بحث لائے ہیں تاکہ اُس موضوع کی مکمل وضاحت ہو جائے۔
ابو علی فضل ابن حسن ابن فضل طبرسی جن کا لقب ’’أمین الاسلام ‘‘ ہے ، چھٹی صدی ہجری کے مشہور شیعہ عالم، مفسِّر، محدِّث، فقیہ، متکلِّم، أدیب، لغت شناس اور ریاضی دان شمار ہوتے ہیں۔ علامہ طبرسی کی ولادت ۴۶۸ یا ۴۶۹ ہجری قمری کو ایران کے مشہور و معروف شہر، مشہد مقدس میں ہوئی ، اور آپ کی رحلت مشہور قول کے مطابق ۵۴۸ ہجری قمری کو عید الاضحی کی شب، خراسان کے شہر سبزوار میں ہوئی، جہاں آپ نے اپنی زندگی کے آخری ۲۵ سال گزارے، وفات کے بعد آپ کے جسدِ خاکی کو مشہد مقدس منتقل کرکے حرم امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام کے اطراف میں سپرد خاک کیا گیا۔ آپ کی تفسیر ’’مجمع البیان‘‘ قرآنِ کریم پر لکھی جانے والی بہترین تفاسیر میں سے شمار ہوتی ہے۔ اِس تفسیر کے مقدَّمہ میں علّامہ طبرسی ؒ نے اِس تفسیر کو ’’مَجْمَعُ البَیٰانِ لِعُلُوْمِ الْقُرٰآنِ‘‘ نام سے یاد کیا ہے، لیکن فہرست نگاروں نے اِس تفسیر کو ’’ مَجْمَعُ البَیٰانِ فِی تَفْسِیْرِ الْقُرآنِ‘‘ کے نام سے بیان کیا ہے۔ یہ تفسیر، تفاسیر جامع میں سر فہرست ہے، جس میں قرآن سے متعلق تمام علوم و فنون کو یکجا اور اکٹھا کر دیا گیا ہے، جیسے: مکی ومدنی کی تقسیم، سورتوں میں آیات کی تعداد، سورتوں کے نام رکھے جانے کی کیفیت اور وجہ تسمیہ، سورتوں کی تلاوت کی فضیلت سے مربوط روایات، اختلاف قرائت، کلمات کے اعراب، مشکل لغات کے معانی، اسباب نزول، آیات کی تاویل و تفسیر، آیات کا آپس میں تناسب، قرآنی قصوں کا ذکر اور فقہی احکام کا بیان وغیرہ کی بحثیں تمام آیات اور سورتوں کے ذیل میں موجود ہیں۔ یہ تفسیر بھی دس جلدوں میں تدوین کی گئی ہے۔ان کی تفسیر سابقہ دونوں تفسیروں سے مختصر تھی، موصوف نے تفسیر سے قبل ایک جامع قسم کا مقدمہ درج کیا ہے، موصوف نے اپنی تفسیر میں حضرت علی کی امامت اور ائمہ اہل بیت کی معصومیت پر بہت زور دیا ہے، اسی طرح رجعت اور مہدی وتقیہ وغیرہ کے عقائد پر بھی زور دیا ہے۔
یہ شیعہ کے مشہور فقہاء، محدثین، وغیرہ میں شمار ہوتے ہیں ،یہ قرآن پاک کی باقاعدہ مکمل لکھی جانے والی تفسیر ہے۔ ابو جعفرمحمد بن حسن بن علی طوسی ؒ ، جو ’’شیخ الطائفہ‘‘کے لقب سے مشہور ہیں، اس تفسیر کے مولف ہیں۔ آپ کا شمار مذہب تشیع کے عظیم فقہاء و مجتہدین میں ہوتا ہے۔ آپ مُحِدِّث، رجالی، مفسر، ادیب، متکلم اور محقق تھے۔ آپ کی پیدائش سرزمین طوس (خراسان) میں ماہ رمضان۳۸۵ ھ ق میں ہوئی۔ اور آپ نے بابرکت زندگی گزارنے کے بعد ۴۶۰ ھ ق میں رحلت فرمائی۔ تفسیر ’’تبیان‘‘ کا شماراہل تشیع کی اہم ترین تفاسیر میں ہوتا ہے، یہ قرآنِ کریم کی پہلی مکمل شیعہ تفسیر ہے، جو پانچویں صدی ہجری قمری میں تدوین کی گئی ہے۔ اس تفسیر کا شمار ’’تفاسیر کلامی‘‘ کے زُمرے میں ہوتا ہے۔اس تفسیر میں قرآنِ کریم سے متعلق تمام علوم و فنون؛ جیسے: صرف و نحو، معانی و بیان، حدیث، فقہ، کلام اور تاریخ وغیرہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح یہ تفسیر، قرائت، قصص، عقائد اور ناسخ و منسوخ، ادبی وجوہ اور آئمہ علیھم السلام سے منقولہ روایات، جیسے مضامین کو بھی اپنے اندر شامل کیے ہوئے ہے۔ اس تفسیر میں اعتقادی و کلامی اور مخالفین، من جملہ وعیدیہ، تناسخہ، حشویہ، خوارج، مشبّہہ، مرجۂ، معتزلہ اور غلاۃ وغیرہ کے نظریات کی ردّ اور جوابات کے ضمن میں بھی کافی بحثیں نظر آتی ہیں اور چونکہ شیخ طوسی ؒ کو شیعہ اور مذاہب اہل سنت کی فقہ میں بڑی مہارت اور عبور حاصل تھا، لہٰذا فقہی اور اصولی مباحث بھی بیان کی ہیں اور شیعہ و اہل سنت کے فقہی مذاہب میں جو نظریاتی اختلاف ہے اس کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ تفسیر دس جلدوں میں تدوین ہوئی ہے۔
تفسیر فرات کوفی۔ تفسیر منسوب بہ امام حسن عسکری۔ تفسیر عیاشی ۔ تفسیر علی ابن ابراہیم قمی ۔ تفسیر تبیان ، شیخ طوسی ۔ تفسیر مجمع البیان ، شیخ طبرسی ۔ تفسیر جوامع الجامع ، شیخ طبرسی۔ تفسیر البرہان ،سید ہاشم بحرینی ۔ تفیسر صافی ، فیض کاشانی ۔تفسیر اصفی، فیض کاشانی۔تفسیر شبر ، عبداللہ شبر۔تفسیر کنزالدقائق۔تفسیرالمیزان، طباطبائی۔تفسیر نور الثقلین۔تفسیر البصائر، جویاباری۔
تفسیر تسنیم ، جوادی آملی ۔تفسیر راہنما، ہاشمی رفسنجانی ۔تفسیر روشن ، حسن مصطفوی۔تفسیر ضیاء ، سید ضیاء الدین۔تفسیر نور ، محسن قرائتی۔تفسیر کوثر ، یعقوب جعفری مراغہ ای۔تفسیرنمونہ ، مکارم شیرازی۔
ترجمہ و تفسیر مولانا مقبول احمدصاحب۔ ترجمہ و تفسیر مولانافرمان علی صاحب۔ ترجمہ و تفسیر مولانا ادیب اعظم ظفر حسن امروہوی صاحب۔ تفسیر عمدة البیان۔تفسیر انوار النجف۔ ترجمہ و تفسیر امداد حسین کاظمی ۔ ترجمہ و تفاسیر علامہ ذیشان حیدر جوادی ۔ ترجمہ و تفسیرمولانا محسن علی نجفی ۔
اسی طرح مذکورہ بالا تفاسیر کے علاوہ شیعہ حضرات کی الصافی فی تفسیر القرآن الکریم از ملا محسن کاشی، تفسیر القرآن از سید عبد اللہ علوی اوربیان السعادہ فی مقامات العبادہ از سلطان محمد خراسانی، عرائس البیان فی حقائق القرآن از ابو محمد الشیرازی الصوفی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔