famous topics of uloom-ul-quran

نزول، جمع و تدوین قرآن

پہلا: بیت العزۃپر جسے بیت المعمور بھی کہتے ہیں جو کعبۃ اللہ کے متوازی آسمان دنیا پر فرشتوں کی عبادت گا ہ ہے(اس کا ذکر سورہ دخان، قدر اور بقرہ میں ہے مثلاً:إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ إِنَّا کُنَّا مُنذِرِیْن (الدخان:3)، إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْر (القدر:1)، شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآن (البقرہ:185)۔یہ نزول ایک بار ہی ہوا تھا ۔

دوسرا: بیت العزت سے آہستہ آہستہ حسب ضرورت  قلب رسول ﷺ پر(اس کا ذکر سورہ الشعراء میں ہے مثلاً: وَإِنَّہُ لَتَنزِیْلُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الْأَمِیْنُ (الشعراء:193) اس نزول کا دورانیہ کم وبیش23 سالوں پر مشتمل ہے۔

وحی کا معنی چپکے سے دل میں کوئی پیغام ڈال دینا ہے،وحی کی مشہور دو قسمیں ہیں : وحی متلو اور غیر متلو، اس کا دوسرا نام وحی جلی اور خفی ہے، وحی کے طریقے تین ہیں ، دل میں القاء کرنا، پردہ کے پیچھے سے پیغام دینا، فرشتہ کے ذریعہ پیغام دینا۔

الرویا الصادقہ، القاء فی القلب، تمثل الملائکۃ رجلا (جب جبرائیل ؑ انسانی شکل میں وحی لے کر آتے تو عام طور پر حضرت دحیہ کلبی ؓ کی شکل میں آتے تھے)، کصلصلۃ الجرس، رؤیۃ الملک فی صورتہ، (حضرت جبرائیل ؑ کو ان کی اصل شکل میں نبی ؑ نے تین دفعہ دیکھا تھا، غار حراء میں پہلی وحی کے موقع پر، سدرۃالمنتہی میں معراج کے موقع پراورایک دفعہ آپؐ کی اپنی خواہش پر  )،  الوحی فوق السماء، الکلام من وراء الحجاب۔

 آہستہ آہستہ نزول قرآن کی کئی ایک حکمتیں بیان کی جاتی ہیں، مثلاً:1۔ تثبیت قلب،2۔ رد اعتراضات،3۔ حفظ و فہم میں آسانی،4۔ تدریج  وغیرہ ۔

کتابت و حفاظت قرآن

پتھرکی سلوں، چمڑے، کھجور کے پتے، بانس کے ٹکڑوں،ہڈیوں اور کاغذات پر ہوتی تھی آپؐ کے دور میں حفاظت قرآن کے لئے یہ چار طریقے تھے:حفظ، کتابت، تعلیم وتعلم، نبی ﷺ کا جبرائیل سے دور۔

ابو بکر صدیق ؓ کی خلافت میں قرآن کو کتابی شکل میں جمع کرنے کا سبب جنگ یمامہ میں حفاظ کی شہادت اور عمر فاروق ؓ کا تکرار بنا، حضرت زید بن ثابتؓ نے ابو بکر ؓ کی خلافت میں جمع قرآن کے لئے چار طرح کی تصدیق کرتے تھے :1۔ اپنے حافظے سے توثیق کرتے،2۔ سیدنا زید ؓ اور حضرت عمر ؓ دونوں مشترک وصول کرتے، 3۔ لکھی ہوئی آیات لے کر آنے والے سے دو گواہ طلب کرتے،4۔ لکھی ہوئی آیت کا دوسرے نسخوں سے تقابل کرتے تھے، نیز حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے صحیفے کو ’’ام الصحائف‘‘ کہا جاتا ہے۔حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا صحیفہ متفرق صحائف پر مشتمل تھا۔

 حضرت عثمان ؓ کے دور میں زید بن ثابت ؓ، عبد اللہ بن زبیر ؓ، سعید بن عاص ؓ، اور عبد الرحمن بن حارثؓ کی ڈیوٹی لگی تھی نیزان کی خلافت میں پہلی دفعہ جب قرء آت میں اختلاف ہوا تو حذیفہ بن یمان ؓ جو اس وقت آرمینیہ اور آذربائیجان عراق والوں کے ساتھ لڑ رہے تھے۔نیز ان کے ابھارنے پر25 ھ کے شروع میں حضرت عثمان ؓ کی خلافت میں ایک رسم الخط پر جمع القرآن کا کام شروع ہوا تھا( اور30 ہجری تک مکمل ہوا)اسی لئے آپ کو جامع القرآن کہا جاتا ہے، نیزحضرت عثمان ؓ نے راجح قول کے مطابق سات مصاحف لکھوائے تھے جوان ممالک کی طرف بھیجے گئے تھے: 1۔مکہ،2۔شام،3۔بصرہ،4۔کوفہ، 5۔مدینہ،6۔یمن،7 ۔بحرین

جمع نبوی کا مقصد قرآن کو تحریری صورت میں محفوظ رکھنا تھا اس لئے قرآن کو مختلف اشیاء (پتھر کی تختیاں، سفید چمڑا، لکڑی کی تختیاں ) پر جمع کیا گیا اس لئے یہ جمع یکجائی شکل میں نہ تھا۔

عہد صدیقی میں جمع قرآن سے مقصود قرآن کو یکجا کتابی صورت میں کرنا تھا تا کہ متفرقات سے کسی قطعہ کے ضائع ہونے کا خطرہ باقی نہ رہے یہ جمع کاغذ پر ہوا جو عہد نبوی میں نہیں تھا۔

عہد عثمانی میں جمع قرآن کا مقصد قرآن کو اختلاف تلفظ سے محفوظ رکھنا تھا تا کہ اختلاف قراء ت اور اختلاف تلفظ سے فتنہ پیدا نہ ہو۔

ناسخ و منسوخ

لغت میں نسخ کا معنی مٹانا اور ازالہ کرنا ہے جبکہ اصطلاح میں’’ رفع الحکم الشرعی بدلیل الشرعی‘‘(کسی شرعی حکم کو شرعی دلیل کے ساتھ ختم کرنا نسخ کہلاتا ہے)منسوخ آیات کے متعلق بہت زیادہ  اختلاف ہے شاہ ولی اللہ نے الفوز الکبیر میں پانچ آیات کو منسوخ قرار دیا ہے جو کہ درج ذیل ہیں:

اول: سورۃالبقرہ کی آیت نمبر240، اسی سورت کی آیت نمبر234 سے منسوخ ہے

منسوخ:وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجاً وَصِیَّۃً لِّأَزْوَاجِہِم مَّتَاعاً إِلَی الْحَوْلِ غَیْرَ إِخْرَاج ۔۔۔وَاللّہُ عَزِیْزٌ حَکِیْم۔

ناسخ:وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجاً یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْراً فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ۔۔۔ وَاللّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ

دوم: سورۃ البقرہ کی آیت نمبر180، سورۃ النساء کی آیت نمبر11 سے منسوخ ہے۔

منسوخ:کُتِبَ عَلَیْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَکَ خَیْراً الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالأقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُتَّقِیْن۔

ناسخ:یُوصِیْکُمُ اللّہُ فِیْ أَوْلاَدِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَیَیْنِ فَإِن کُنَّ نِسَاء  فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ۔۔۔ إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلِیْما حَکِیْم۔

سوم: سورہ الانفال کی آیت نمبر65، اگلی آیت یعنی66 سے منسوخ ہے۔

منسوخ:یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ إِن یَکُن مِّنکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُواْ مِئَتَیْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُم مِّئَۃٌ یَغْلِبُواْ أَلْفاً ۔۔۔

ناسخ:الآنَ خَفَّفَ اللّہُ عَنکُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفاً فَإِن یَکُن مِّنکُم مِّئَۃٌ صَابِرَۃٌ یَغْلِبُواْ مِئَتَیْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُمْ أَلْفٌ یَغْلِبُواْ أَلْفَیْنِ۔۔۔

چہارم:  سورہ احزاب کی آیت نمبر52، الاحزاب ہی کی آیت نمبر50 سے منسوخ ہے

منسوخ:لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَاء  مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَکَ حُسْنُہُن ۔

ناسخ:یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللَّاتِیْ آتَیْتَ أُجُورَھُنَّ ۔۔۔وَکَانَ اللَّہُ غَفُوراً رَّحِیْماً

پنجم: سورہ مجادلہ کی آیت نمبر12، اگلی آیت یعنی13 سے منسوخ ہے

منسوخ:یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَۃً۔۔۔ رَّحِیْمٌ ۔

ناسخ:أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَاتٍ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا۔۔۔ بِمَا تَعْمَلُونَ

اس کی تین اقسام ہیں

پہلی۔وہ آیات جن کی قرآءت اور حکم دونوں منسوخ ہیں مثلا صحیح مسلم کی ایک روایت میں یو ں ہے کہ: کان فیما انزل عشر رضعات معلومات یحرمن، ثم نسخن بخمس معلومات

دوسری ۔ جن کی قرآءت باقی اور حکم منسوخ ہو گیا ہو مثلا: یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ إِن یَکُن مِّنکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُواْ مِئَتَیْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُم مِّئَۃٌ یَغْلِبُواْ أَلْفاً مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَفْقَہُون

تیسری۔ جن آیات کی قرآء ت منسوخ اور حکم باقی ہو جیسے (علماء کے ہاں )الاحزاب میں یہ آیت تھی:الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموھما البتۃ نکالا من اللہ واللہ عزیز حکیم

شاہ ولی اللہ کے نزدیک پانچ آیات، ابن العربی کے نزدیک اکیس آیات، علامہ سیوطیؒ کے نزدیک بیس آیات، علامہ زرقانی ؒ کے نزدیک آٹھ آیات، مولانا گوہر رحمان ؒ نے چھ آیات کو منسوخ قرار دیا ہے

متجددین میں سے مولانا محمد عبدہ،محمد رشید رضا، مصطفی مراغی،سرسید احمد خان، غلام احمد پرویز اور اکثر اہل تشیع قرآن میں نسخ کے قائل نہیں ہیں ۔

مکی ومدنی کی بحث

مکی سورت یا آیت اس کو کہا جاتا ہے جو ہجرت سے پہلے ناز ل ہوئی ہو اور مدنی وہ ہے جو ہجرت کے بعد ناز ل ہوئی ہو۔

مکی سورتوں میں عمومی طور پریہ علامتیں پائی جاتی ہیں :1۔ سجدہ تلاوت سوائے سورۃ حج کے، 2۔ جس میں لفظ کلا ہو، 3۔ سورۃ کا آغاز یاایھا الناس سے ہو رہا ہو،4۔ سورت کا آغاز حروف مقطعات سے ہو رہا ہو سوائے سورہ بقرہ اور آل عمران کے،5۔ گزشتہ اقوام کے حالات وواقعات کا بیان،6۔ آیات وسور مختصر ہوں،7۔ عقائد کی اصلاح پر زور دیا جائے،8۔ حضرت آدم ؑ اور حواء کا ذکر سوائے سورت بقرہ کے وغیرہ۔

مدنی سورتوںمیں اکثر یہ علامتیں پائی جاتی ہیں :1۔ آیات وسور طویل ہوں،2۔ عبادات ومعاملات کا ذکر ہو،3۔ جہاد کا ذکر ہو،4۔ اہل کتاب کو مخاطب کیا گیا ہو،5۔ منافقین کا بیان ہو،6۔ “یاایھاالذین امنوا” سے مخاطب کیا جائے ۔  

تفسیر کی اقسام

تفسیر بالماثور،2۔ تفسیر بالرائے،3۔تفسیر الصوفیۃ،4۔تفسیرالعلمی، 5۔تفسیر الفقھی

اس سے مراد وہ تفسیر ہے جو قرآن، احادیث نبویہ یا اقوال صحابہ وتابعین سے منقول ہو۔ اس موضوع کی مناسبت سے مشہور تفاسیر یہ ہیں : جامع البیان عن تاویل آی القرآن از ابو جعفر محمد بن جریر طبری(م310ھ)، بحر العلوم از ابو لیث نصر بن محمد سمر قندی (م373ھ)، معالم التنزیل از محی السنۃ ابو محمد حسین بن مسعودالفراءالبغوی (م510ھ)،تفسیر القرآن العظیم از عماد الدین ابو الفداء اسماعیل بن عمرو بن کثیر (م774ھ)، الدر المنثور فی التفسیر الماثور از جلال الدین ابو الفضل عبد الرحمان بن ابی بکر بن محمد السیوطی(م 911ھ)وغیرہ

تفسیر بالرائے کی دو اقسام ہیں: الف۔ تفسیر بالرائے محمود،ب۔تفسیر بالرائے غیر محمود

اس سے مراد ایسی تفسیر ہے جو مفسر اپنے اجتہاد سے کرے اور اس کی بنیاد کلام عرب، وجوہ دلالت اور جاہلی اشعار پر ہوبشرط یہ کہ مفسر اسباب نزول، ناسخ ومنسوخ اور اقسام قراء ت سے بھی واقف ہو۔ اس موضوع کی مناسبت سے مشہور تفاسیر یہ ہیں:مفاتیح الغیب المعروف تفسیر کبیر از فخر الدین رازی ابو عبد اللہ محمد بن عمر (543۔606ھ)، انوار التنزیل واسرارالتاویل المعروف تفسیر بیضاوی از قاضی ناصر الدین ابو الخیر عبد اللہ بن عمر بیضاوی(م691ھ)، البحر المحیط ازابو حیان محمد بن یوسف الاندلسی(م745ھ)، وغیرہ۔

اس سے مراد ایسی تفسیر ہے جس میں تفسیر بالرای جائز یعنی محمود کی شرائط کو مد نظر نہ رکھا گیا ہو بلکہ اس کی بنیاد مفسر کی خواہشات اور بدعتی نظریات پر ہو۔ اس موضوع کی مناسبت سے مشہور تفاسیر یہ ہیں :الکشاف عن حقائق التنزیل وعیون الاقاویل فی وجوہ التاویل المعروف تفسیر الکشا ف از ابو القاسم محمود بن عمر جار اللہ الزمخشری (م 538ھ)، تفسیر حسن عسکری از ابو محمد حسن بن علی الھادی(م 260ھ)، مجمع البیان لعلوم القرآن از ابو علی الفضل بن الحسن الطبرسی، تفسیر غریب القرآن از امام زید بن علی (م290ھ)

اس کی دو اقسام ہیں:الف۔تفسیر الصوفی النظری،ب۔ تفسیر الصوفی الفیضی۔

یہ ایسی تفسیر ہوتی ہے جس کی بنیاد صرف نظری مباحث اور فلسفی تعلیمات پر ہوتی ہے جن کا حقائق کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا مثلاً  الفتوحات المکیہ از محی الدین ابن عربی(متوفی1240ء)

اس سے مراد آیات قرآنیہ کی ایسی تفسیر ہے جو ظاہر کے خلاف ہو اور جس کی بنیاد ایسے مخفی اشارات پر ہو جو اصحاب تصوف و سلوک ہی کو معلوم ہو سکتے ہوں مثلاً: تفسیر القرآن العظیم از ابو محمد سھل بن عبد اللہ بن یونس الشیرازی (م283ھ)، عرائس البیان فی حقائق القرآن از ابو محمد روز بہان الشیرازی الصوفی(م666

اس سے مراد ایسی تفسیر ہے جس میں قرآنی آیات سے فلسفیانہ اور جدید علوم(سائنس، عمرانیات وغیرہ) نکالنے کی کوشش کی گئی ہو مثلاً : امام غزالی کی جواہر القرآن اور شیخ الطنطاوی الجوہری کی الجواہر فی تفسیر القرآن الکریم ہے۔

اس سے مراد وہ تفسیر ہے جس میں قرآن کریم کی صرف احکام والی آیات کی تفسیر کی گئی ہو۔ مشہور تفاسیر یہ ہیں 

احکام القرآن از ابو بکر احمد بن علی الرازی الجصاص(م 370ھ)، تفسیرات احمدیہ فی بیان الایات الشرعیہ از ملا جیون حنفی(متوفی1130ھ)۔

احکام القرآن از ابو الحسن علی بن محمد الطبری (م450ھ)،القول الوجیع از جلال الدین السیوطیؒ

احکام القرآن از شیخ ابو بکر  محمد بن عبد اللہ بن محمد الاندلسی(م543ھ)، الجامع لاحکام القرآن از شیخ محمد بن احمد القرطبی (م671ھ)

محدثین ، متکلمین ، فقہاء اوراصولین ، نحویین ، قراء ، ادباء اور صوفیاء کے گروہ۔

بقول بابائے اردو عبد الحق کے اردو زبان میں قرآن مجید کا پہلالفظی ترجمہ مولانا شاہ رفیع الدین (1750-1818ء) نے کیا تھا،تو اس اعتبار سے مولانا شاہ رفیع الدین کو اردو ترجمہ قرآن کا بانی بھی کہا جا تا ہے۔برصغیر میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (1703-1762ء) نے سب سے پہلے فارسی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا۔ اس کے بعد شاہ عبد القادر (1753-1814ء) نے”موضح القرآن” کے نام سے بامحاورہ قرآن مجید کا اردو ترجمہ کیا ۔

قرآن مجید کی تفسیر کے مشہور ماخذ حسب ذیل ہیں : 1۔قرآن،2۔احادیث،3۔اقوال صحابہ، 4۔اقوال تابعین، 5۔ اسرائیلیات،6۔ لغت عرب،7۔ عقل سلیم۔

یہ ہیں: 1۔ علم لغت،2۔ علم نحو،3۔ علم صرف،4۔ علم الاشتقاق،5۔ علم معانی،بیان وبدیع،6۔ علم القرآء ت، 7۔علم الکلام،8۔ اصول فقہ،9۔اسباب نزول،10۔ علم القصص،11۔علم الناسخ والمنسوخ،12۔حدیث نبوی۔

آیت ظہار حضرت  اوس بن ثابت ؓ کی اہلیہ کے متعلق نازل ہوئی، آیت لعان حضرت عویمر عجلانی یا ہلال بن امیہ کے بارے نازل ہوئی، آیت کلالہ حضرت جابر بن عبد اللہ ؓکے حق میں نازل ہوئی۔

قرآن کریم کے ایسے الفاظ جو اجنبی اور غیر مانوس ہوں وہ غریب القرآن کہلاتے ہیں۔

محکم ایسی آیات کو کہتے ہیں جو اپنے معنی اور مفہوم پر دلالت کرنے میں واضح ہوں جبکہ متشابہ ایسی آیات کو کہتے ہیں جو اپنا معنی ومفہوم ظاہر کرنے میں واضح نہ ہوں۔

اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن کریم کی ہر آیت اور سورت مضمون کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مربوط ہو۔

ابتدائی مکاتب تفاسیر اور ان کے بانی وطلباء

مکہ کا تفسیری مکتب حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ (یہ آپ ﷺ کے چچیرے بھائی تھے، ان کی والدہ کا نام لبابہ الکبری تھا، یہ شعب ابی طالب میں محصوری کے ایام میں پیدا ہوئے اور68ھ کو70 سال کی عمر میں طائف میں فوت ہوئے اور انہی کے متعلق آپؐ نے فرمایا تھا :ـ ’’اللھم فقھہ فی الدین وعلمہ التاویل‘‘) کے طفیل قائم ہوا تھا، آپ اپنے تلامذہ کے درمیان بیٹھ کر درس قرآن دیا کرتے تھے اور اس کے مشکل مطالب کی توضیح کرتے تھے، آپ کے اس مکتب سے فیض یاب ہونے والے مشہور طلباءیہ ہیں : سعید بن جبیر، مجاہد، عکرمہ مولی ابن عباس، طاو س ، عطاء بن ابی رباحؒ وغیرہ

اس مکتب کے بانی حضرت ابی بن کعبؓ (م30ھ)(آپ انصاری تھے، آپ کی کنیت ابو المنذر اور ابو الطفیل تھی، آپ کو سید القراء کہا جاتا ہے)تھے، ان کے مشہور تلامذہ میں سےیہ اشخاص ہیں: ابو العالیہؒ، محمد بن کعب القرظیؒ، زید بن اسلم ؒ وغیرہ۔

عراقی مکتب تفسیر کے بانی حضرت عبد اللہ بن مسعود  ؓ(آپ کی کنیت ابو عبد الرحمن تھی اور قبیلہ بنو ہذیل سے تعلق رکھتے تھے، آپ نے پہلے حبشہ پھر مدینہ کی طرف ہجرت کی اور قبلتین کی طرف نماز کی سعادت بھی آپ کو حاصل ہوئی،32ھ کو آپ کا ساٹھ سال کی عمر میں انتقال ہوا ) تھے، آپ کے مشہور تلامذہ میں سے حسب ذیل ہیں : علقمہ بن قیس، مسروق، اسود بن یزید، مرہ ہمدانی، عامر شعبی، حسن بصری، قتادہ بن دعامہ سدوسی  رحمہم اللہ  وغیرہ۔