Famous Urdu Quran Translations

عبد اللہ ہوگلی 1869ء بمطابق 1245ھ عبد اللہ سید 1869ء بمطابق 1254ھ کا ٹائپ شدہ ترجمہ ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد دکن میں موجود ہے یہ ترجمہ آٹھ سو پچاس صفحات پر مشتمل ہے۔

سید علی مجتہد 1836ء بمطابق 1252ھ کا ترجمہ وتفسیر ’توضیح مجید میں تنقیح کلام اللہ الحمید‘ کے نام سے چار جلدوں میں حیدری پریس سے بمبئی سے شائع ہوا۔

کرامت علی جونپوری 1837ء 1253ھ کا یہ ترجمہ ’ کوکب دری‘ کے سرکار عالی، حیدرآباد دکن میں موجود ہے۔

مولوی انور علی لکھنوی 1255ھ بمطابق 1839 میں قرآن کا ترجمہ کیا جو کتب خانہ آصفیہ سرکار عالی حیدرآباد دکن میں موجود ہے۔

شاہ رفیع الدین دہلوی محدث دہلوی 1840ء بمطابق 1256ھ کے اس ترجمے کی اشاعت شاہ عبد القادر کے فوائد ’ موضح قرآن‘ کے ساتھ کلکتہ کے ایک قدیم مطبع بنام اسلامی پریس میں طبع ہوا۔ یہ پہلا ایڈیشن دو جلدوں میں بالترتیب 1838ء بمطابق 1254ھ اور 1840ء بمطابق 1256ھ میں طبع ہوا۔

سید صفدر حسین مودودی 1844ء بمطابق 1260ھ کا ترجمہ وتفسیر قرآن مجید مع ختم الصحائف مترجم میاں محمود الحسن کا لیہ ضلع لائل پور کی ملکیت میں موجود ہے۔

سکندر علی خاں نواب مالیر کوٹلہ 1852ء بمطابق 1268ھ کا ترجمہ ’تفسیر رحمانی ‘ کے نام سے مجتبائی پریس دہلی سے طبع ہوا۔ آٹھ سو اڑتالیس (848) صفحات پر پھلا ہوا ہے۔ اس کے حاشیہ پر شاہ عبد القادر دہلوی کا موضح قرآن دیا گیا ہے۔ بیت القرآن لاہور میں اس کا ایک نسخہ موجود ہے۔

صبغۃ اللہ قاضی محمد بدر الدولہ 1860ء بمطابق 1277ھ نے ترجمہ وتفیسر ’فیض الکریم‘ لکھنی شروع کی جسے ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے مفتی محمد سعید اور مفتی محمود نے مکمل کرنے کی کوشش مگر دونوں اپنی وفات کی وجہ سے مکمل نہ کر سکے۔ ان کے بعد ان کے پوتے مولانا ناصر الدین نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ گویا ترجمہ وتفسیر فیض الکریم تین پشتوں اور چار علما کی محنت کا نتیجہ ہے۔

نواب قطب الدین خان بہادر دہلوی 1866ء بمطابق 1283ھ نے جامع التفسیر لکھی۔ سورۃ اعلیٰ سے سورۃ الناس کا ترجمہ ان کے شاگرد مولوی عبد القادر نے مکمل کیا۔ کانپور کے نظامی پریس میں 1866 میں طبع ہوئی۔

مولانا یعقوب حسن(1866ء بمطابق 1283ھ) کا ’جمائل شریف مترجمہ اردو‘ کے نام سے اردو ترجمہ قرآن آگرہ کے مینی پریس شائع ہوا۔ یہ دراصل تفسیر جلالین کا عربی سے اردو ترجمہ ہے۔

مولوی عبد الغفور خاں ( 1867ء بمطابق 1284ھ) کا اردو ترجمہ جو تفسیر کے ساتھ بنام ’حدائق البیان فی معارف القرآن‘ مطبع فاروقی، دہلی سے شائع ہوا۔

سید ظہیر الدین بگرامی ( 1873ء بمطابق 1290ھ) کا ترجمہ قرآن مجید برٹش میوزیم لائبریری لندن میں موجود ہے۔ یہ ترجمہ چھ سو چوالیس صفحات پر مشتمل ہے۔

رؤف احمد رافت نقشبندی مجددی 1876ء بمطابق 1293ھ کا ترجمہ 1832ء تک ’تفسیر رؤفی‘ کے ضمن میں ہوتا رہا۔ اس تفسیر کا دوسرا نام ’تفسیر مجددی‘ بھی ہے۔

محمد حسین نقوی کا ترجمہ تفسیر (1876ء بمطابق 1293ھ) میں شائع ہوئی۔ یہ ترجمہ اور تفسیر مرتضوی پریس دہلی میں طبع ہوئی۔ اس کا مکمل نام معاملات الاسرار فی مکاشافات الاخبار معروف بتفسیر حضرت شاہی ہے۔

فخر الدین احمد قادری کا ترجمہ 1879ء بمطابق 1296ھ میں شائع ہوا۔ یہ دو جلدوں پر مشتمل تھا۔ ’تفسیر قادری‘ کے نام سے یہ ترجمہ لکھنؤ میں شائع ہوا۔

کنھیا لال لکھداری کا ترجمہ 1882ء بمطابق 1299ھ میں شائع ہوا۔ یہ ترجمہ شاہ عبد القادر دہلوی کے ترجمہ قرآن سے مدد لیتے ہوئے کیا گیا۔ یہ ترجمہ سردار جگجوت سنگھ، نبیرہ راجا رنجیت سنگھ کی فرمائش پر عربی متن کے بغیر لکھا گیا۔ مترجم کی تصویر جو ہندو تھاکی تصویر پہلے صفحے پر چھپی ہے۔ یہ دھرم بک لدھیانہ سے شائع ہوا۔

عبد الصمد کا ترجمہ 1885ء بمطابق 1302ھ میں ’ جواہر الصمدیہ‘ کے عنوان سے مطبع فاروقی، دہلی سے شائع ہوا۔ اس کو جملہ سورتوں کے مضامین کے اعتبار سے مرتب کیا گیا ہے۔ یہ دور سو پچھتر (275) صفحات پر مشتمل مختصر تفسیر بھی ہے۔

محمد احتشام الدین مراد آبادی کا ترجمہ 1885ء بمطابق 1303 میں لکھا گیا اور ضخیم تفسیر بھی ہے۔ جو ’تفسیر اکبر اعظم کے نام سے موسوم‘ ہے۔ ترجمہ سلیس اور پر اثر ہے۔

سید علی لکھنوی کا ترجمہ 1895ء بمطابق 1313ھ کا ہے۔ یہ ترجمہ اور تفسیر بنام ’تنویر البیان‘ کے نام سے مطبع اعجاز محمد ی آگرہ سے شائع ہوا۔

سید زین العابدین نے قرآن کا ترجمہ 1886ء بمطابق 1304ھ میں کیا۔ یہ کاشف النعم کے نام سے کیا گیا ہے۔ الہ آباد میں ہندوستانی اکیڈمی کے تحت شائع ہوا۔

مولوی فخر الدین احمد کی تفسیر 1886ء بمطابق 1304ھ میں آئی۔ مولوی صاحب کی تفسیر ’ تفسیر قادری ‘ تفسیر حسینی کا ترجمہ ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1300ھ بمطابق 1882ء میں لکھنؤ میں شائع ہوا۔ اور دوسرا ایڈیشن لکھنؤ کے نول کشور پریس میں 1304ھ یعنی 1886ء میں شائع ہوا۔

سید محمد علی کا ترجمہ مع مبسوط حواشی کے 1886ء بمطابق 1303ھ میں دو جلدوں میں شائع ہوا۔ یہ لکھنؤ کے حاجی محمد قلی خان کانپوری پریس میں طبع ہوا۔ متن کے بغیر پہلا ترجمہ پاک و ہند میں ہوا جو ایک شیعہ عالم نے کیا۔ العابدین کا ترجمہ 1887ء بمطابق 1304ھ میں شائع ہوا۔

حکیم سید محمد حسن امروھی کی 1887ء بمطابق 1305ھ میں ترجمہ وتفسیر ’غایۃ الب رہان‘ کے نام سے شائؔع ہوئی۔ یہ دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلا ایڈیشن امردھ کے مراد آباد میں اور دوسرا امرود معی سے ریاضی پریس سے طبع ہوا۔

سیدنور الحق منعم نے 188ء بمطابق 1305ھ میں نواب سید محمد فیض اللہ خان کی فرمائش پر ترجمہ وتفسیر لکھی تھی۔

ابو محمد ابراہیم بن الحکیم عبد العلی آروی نے 1889ء بمطابق 1307ھ میں قرآن کا ترجمہ ’ تفسیر خلیلی ‘ کیا یہ آرہ کے مطبع خلیلی میں طبع ہوا۔

سید عمار علی رئیس نے 1890ء بمطابق 1307ھ میں ترجمہ اور تفسیر کیا۔ یہ تفیسر ’ عمدۃ البیان‘ کے نام سے دہلی کے مطبع یوسفی سے شائع ہوا۔ یہ ایک ہزار چھ سو چوہتر 1674 صفحات پر مشتمل ہے۔

احسان اللہ محمد عباسی گورکھپوری نے 1892ء بمطابق 1310ھ میں ترجمہ لکھا۔ یہ اسعدی پریس گھور کھپور میں شائع ہوا۔ احسان اللہ محمد عباس اردو کے معروف مصنف ہیں۔

مولوی محمد باقر کا ترجمہ 1893ء بمطابق 1310ھ میں مفید عام پریس سیالکوٹ سے شائع ہوا۔

ریونڈ ڈاکٹر امام الدین امر تسری کا ترجمہ 1894ء بمطابق 1312ھ میں الہ آباد کے پریس کرسچن مشن مین چھپا تھا۔ مترجم کے نام اور پریس کے سے اندازہ ہوتا ہے یہ ترجمہ کیسا ہے۔ مسیحیت کی جانب سے ایک پروپیگنڈہ ہے۔

فیروز الدین ڈسکوی سیالکوٹ کا ترجمہ مع حواشی 1894ء بمطابق 1312ھ میں لکھا گیا۔

محمد احتشام الدین مراد آبادی کی مترجم تفسیر 1895ء بمطابق 1313ھ میں تفسیر اکبر اعظم کے نام سے طبع ہوئی اس کا دوسرا ایڈیشن نو جلدوں پر مشتمل ہے۔ جو نول کشور پریس میں لکھنؤ سے طبع ہوا۔ ترجمہ سلیس اور پر اثر ہے۔

مولانا ثناء اللہ امر تسری کا 1895ء بمطابق 1313ھ میں ترجمہ سات جلدوں میں طبع ہوا۔ حواشی سمیت یہ ترجمہ ثنائی کے نام سے امر تسر کے چشمہ نور پریس سے شائع ہوتا رہا۔

سید علی لکھنوی کا ترجمہ 1895ء بمطابق 1313ھ میں ’ تنویر البیان‘ کے نام سے مطبع اعجاز محمدی آگرہ سے شائع ہوا۔

مولوی حمید اللہ میرٹھی نے تفسیر وترجمہ 1897ء بمطابق 1315ھ میں کیا۔ یہ ترجمہ مطبعہ فاروقی میں طبع ہوا۔ دیپاچہ میں تفسیر کا نام ’ حدیث التفاسیر‘ دیا گیا ہے۔

مولانا عبد المقتدر بدابونی نے 1897ء بمطابق 1315ھ میں ترجمہ وتفسیر قرآن لکھی۔ یہ چند جدید مضامین کے اضافہ کے ساتھ تفسیر عباسی کا ترجمہ ہے۔ اس میں شاہ عبد القادر کا ترجمہ اور حاشیہ میں تفسیر حسنی ہے۔ یہ آگرہ کے انوری پریس میں طبع ہوئی۔

عبد الحکیم خان پٹیالوی (متوفیٰ 1940ء بمطابق 1359ھ) نے تفسیر القرآن بالقرآن مع ترجمہ کیا جو عزیزی پریس، تراوڑی، کرنال سے 1901ء بمطابق 1319ھ شائع ہوا۔ اس طباعت کا ایک نسخہ برٹش لائبریری میں موجود ہے۔

مولانا عاشق الٰہی میرٹھی کا ترجمہ ہے جو خیر المطابع لکھنؤ سے 1902ء بمطابق 1320ھ میں شائع ہوا۔

سید امیر علی ملیح آبادی (متوفیٰ 17۔1918ء بمطابق 1332ھ) نے 1902ء بمطابق 1320ھ نے مواہب الرحمٰن مع ترجمہ کے زیر عنوان یہ خدمت انجام دی۔ یہ ترجمہ نو لکشو پریس، لکھنؤ سے شائع ہوا۔ آٹھ ہزار پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے جو تیس جلدوں میں ہے۔

سید شریف حسین نے 1902ء بمطابق 1320ھ میں ’ بنام حیدری‘ ترجمہ وتفسیر لکھی ہے۔ ترجمہ پر سید محمد ہارون زنگی پوری نے نظر ثانی فرمائی تھی۔ عبی کے امامیہ کتب خانہ سے شائع کیا۔

سید محمد عمر قادری نے 1902ء بمطابق 1320ھ میں ’ کشف القلوب ‘ کے تاریخی نام سے ترجمہ اور تفسیر لکھی جو ’ تفسیر قادری‘ کے نام سے مشہور ہے۔ شمس الاسلام پریس، حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی۔

محمد عبد الحمید نے 1903ء بمطابق 1321ھ میں ’ تفسیر البیان فی ترجمۃ القرآن‘ کے نام سے ترجمہ قرآن‘ کے نام سے ترجمہ قرآن کیا جو دہلی سے شائع ہوا۔

1905ء بمطابق 1323ھ میں ہونے والا ترجمہ و تفسیر جلالین از جلال الدین محلی و جلال الدین سیوطی جس کے مترجم محمد ابو زر سبنھلی ہیں اس کو آگرہ میں اعجاز محمدی پریس نے شائع کیا۔

محمد ابو زر سنبھلی نے 1905ء بمطابق 1332ھ میں تفسیر جلالین کا عربی سے اردو میں ترجمہ کیا جو مطبع اعجاز محمدی، آگرہ سے شائع ہوا۔

مولانا وحید الزماں کا ترجمہ 1905ء بمطابق 1323ھ میں تفسیر و حیدری مع ترجمہ موضحۃ القرآن کے نام سے شائع ہوا۔ اس کا ایک نسخہ 1933ء بمطابق 1321ھ میں گیلانی پریس لاہور سے طبع ہوا۔

مرزا محمد امراؤ حیرت دہلوی کا ترجمہ 1902ء بمطابق 1324ھ کرزن پریس دہلوی سے شائع ہوا، صفحات نو سو بارہ (912) ہیں۔ اس طباعت کا ایک نسخہ بیت القرآن لاہور میں ہے۔

ڈاکٹر محمد حکیم نے 1902ء بمطابق 1324ھ میں ’حمائل التفسیر‘ کے نام سے کرنال سے شائع ہوا۔

ثناء اللہ امرتسری نے 1907ء بمطابق 1325ھ میں تفسیر ثنائی کے نام سے ترجمہ وتفسیر کا کام کیا، جسے مطبع اہل حدیث نے شائع کیا۔ واضح ہو کہ یہ مکمل ترجمہ تھا۔ قبل ازیں مترجم کے جزوی ترجمے اور تفسیر چھپتی رہی ہیں۔

نجم الدین سیوہاروی (متوفیٰ 1928ء بمطابق 1374ھ) نے ترجمہ کیا جو فیض بخش ایجنسی فیروز پور سے شائع ہوا۔ صفحات چار سو ستاسی (387) ہیں۔

مولانا نظام الدین حسن نے 1907ء بمطابق 1325ھ میں ترجمہ کیا، جو نو لکشو پریس لکھنؤ سے شائع ہوا۔

مولانا فتح محمد جالندھری نے 1908ء بمطابق 1326ھ میں ترجمہ کیا، جو رفاہ عام پریس لاہور سے شائع ہوا۔

عبد اللہ چکڑالوی کا ترجمہ 1908ء بمطابق 1326ھ میں لاہور کے ہندوستان سٹیم پریس میں طبع ہوا۔

مولانا محمد احسن تعلقداری نے 1909ء بمطابق 1327ھ کا ترجمہ مع تفسیر ہے، جو احسن التفاسیر کے نام سے چھپا۔ افضل المطابع دہلی سے سات جلدوں میں شائع ہوا۔

مرزا غلام احمد قادیانی نے 1910ء بمطابق 1328ھ میں خلیفہ اول کا یہ ترجمہ اخبار ’ بدر‘ میں بالاقساط چھپتا رہا۔ اسے میرٹھ کے ایک احمدی نے خیر خواہ اسلام پریس، آگرہ سے کتابی صورت میں شائع کیا۔

مولانا حکیم نور الدین کا ترجمہ قرآن کی طباعت 1910ء بمطابق 1328ھ میں آگرہ کے خیرا سلام پریس میں ہوئی۔ یہ مولانا کے درس قرآن سے اخذ کر کے لکھا گیا ہے۔

شیخ محمد علی دہلوی نے 1911ء بمطابق 1329ھ میں ترجمہ مع حاشیہ کیا جو مطبع اثنا عشری، دہلی سے شائع ہوا۔

امام احمد رضا خان نے 1911ء بمطابق 1329ھ میں ترجمہ کیا، جو کنز الایمان کے نام سے مطبع نعیمی اہل سنت ( مراد آباد) سے شائع ہوا۔

ابو محمد مصلح حیدر آبادی نے 1911ء بمطابق 1329ھ میں ترجمہ کیا جو ’ توضیح البیان‘ کے نام سے مطبع اہل سنت مراد آباد سے شائع ہوا۔

مولوی سرور شاہ نے 1912ء بمطابق 1330ھ میں ترجمہ مع تفسیر کیا جو 1906 سے 1912 تک رسالہ تعلیم الاسلام، رسالہ تفسیر القرآن اور یوریو آف ریلیجئنز کے ضمیمے میں چھپتا رہا۔ مطبع معلوم نہ ہو سکا۔

نسیم الدین مراد آبادی 1912ء بمطابق 1330 ھ میں ترجمہ قرآن طبع ہوا۔ یہ ترجمہ اہل سنت برق پریس مراد آباد میں شائع ہوا۔ اسے خذامن العرفان کا نام دیا گیا ہے۔

محمد انشاء اللہ نے 1915ء بمطابق 1333ھ میں ترجمہ میں تفسیر کی جو حمیدیہ اسٹیم پریس، لاہور سے آٹھ جلدوں میں شائع ہوا۔ کل صفحات تین ہزار سات سو چالیس ہیں۔ یہ تفسیر علامہ رشید رضا مصری کی تفسیر المنار کے اردو ترجمہ پر مشتمل ہے۔ تاہم ترجمہ قرآن، محمد انشاء اللہ کی طرف سے ہے۔ اس طباعت کا ایک نسخہ بیت القرآن لاہور، ایک کتاب خانہ ادارہ تحقیقات اسلامی (اسلام آباد) اور ایک نسخہ برٹش لائبریری میں موجود ہے۔

خواجہ احمد الدین امرتسری کا ترجمہ 1915ء بمطابق 1334ھ میں تفسیر بیان للناس کے نام سے سات جلدوں میں شائع ہوا۔ اس کی طباعت امرتسر کے دفتر ’امت مسلمہ‘ سے ہوئی۔

امیر سید فتح اللہ شیرازی نے 1917ء بمطابق 1335ھ میں ترجمہ مع تفسیری نوٹس شائع کیے۔ اس طباعت کا ایک نسخہ کتاب خانہ آصفیہ سرکار عالی میں موجود ہے۔

فخر الدین ملتانی نے 1919ء بمطابق 1337ھ میں ترجمہ کیا، جو اسلامیہ اسٹیم پریس لاہور سے شائع ہوا۔ اس کی تیاری میں سید محمد سرور شاہ، حافظ روشن علی اور دیگر احمد علما نے بھی حصہ لیا۔ ضخامت 704 صفحات ہیں۔

شیخ محمد اشرف نے 1920ء بمطابق 1338ھ میں ترجمہ کیا، جو لاہور سے طبع ہوا۔ کل صفحات سات سو بتیس ہیں۔ اس میں دوسرا اردو ترجمہ مولانا وحید الزمان خاں کی طرف سے ہے۔ اس کے حاشیے پر ابو القاسم محمد عبدہ الفلاحی کے مفصل تفسیری نوٹس ہیں۔

مقبول احمد دہلوی نے 1921ء بمطابق 1339ھ میں ترجمہ کیا، جو مقبول پریس دہلوی سے شائع ہوا۔ نو سو چھیاسٹھ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ ترجمہ نواب حامد علی خان رام پوری کے ایما پر کیا گیا۔

یعقوب حسن نے 1922ء بمطابق 1340ھ میں ترجمہ کیا جو ’ کتاب الہدیٰ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کا مقدمہ ’ کشاف الہدیٰ‘ کے نام سے لکھا گیا۔

مولانا محمود حسن دیوبندی نے 1923ء بمطابق 1341ھ میں ترجمہ کیا، جو ’موضح القرآن‘ کے نام سے مدینہ پریس، بجنور سے شائع ہوا۔ ڈاکٹر صالحہ نے اس کی تاریخ 1965ء بمطابق 1344ھ رقم کی ہے۔

مولانا محمد عبد الباری فرنگی محلی نے 1925ء بمطابق 1343ھ میں ترجمہ کیا جو ’الطاف الرحمٰن بتفسیر القرآن‘ کے نام سے تین جلدوں میں چھپا۔ نامی پریس لکھنؤ کی طباعت کا ایک حصہ بیت القرآن لاہور میں موجود ہے۔

حافظ نواب علی چاٹگامی (متوفیٰ 1953ء بمطابق 1373ھ) کا اردو ترجمہ کنز الرحمٰن في اسرار القرآن جو خیر المطابع مغرب سے 1925ء بمطابق 1343ھ میں شائع ہوا۔ اس طباعت کا ایک نسخہ بیت القرآن لاہور میں موجود ہے۔

محمد رمضان اکبر آبادی نے 1926ء بمطابق 1344ھ میں تفسیر ابن عباس کا عربی سے اردو ترجمہ کیا، جو مطبع گلشن ہند، آگرہ سے شائع ہوا۔ تین سو ایک صفحات پر مشتمل ہے۔

یعقوب حسن سیٹھ مدراسی کا ترجمہ 1926ء بمطابق 1345ھ میں کتاب الہدیٰ کے نام سے شائع ہوا۔

محمد بن ابراہیم جونا گڑھی نے 1928 بمطابق 1346ھ میں تفسیر ابن عباس کا اردو ترجمہ کیا، جو نور محمد پریس دہلی سے شائع ہوا۔

سید احمد حسن دہلوی (متوفیٰ 1338ھ) نے 1928ء بمطابق 1346ھ میں ترجمہ کیا جو ’ احسن الفوائد‘ کے نام سے جید برقی پریس دہلی سے طبع ہوا۔ صفحات 828 ہیں۔ اس کی تفسیر سات جلدوں پر مشتمل ہے، جس کا نام ’ احسن التفاسیر‘ ہے۔

سید ممتاز علی دیوبندی ونجم الدین سیوہاروی نے 1932ء بمطابق 1351ھ میں مشترکہ ترجمہ کیا، جو دارالاشاعت گیلانی پریس لاہور سے چھ جلدوں میں شائع ہوا۔ کل صفحات 1143 ہیں۔ سید ممتاز علی یہ ترجمہ مکمل نہیں کر پائے تھے کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ بقیہ حصہ نجم الدین سیوہاروی نے پورا کیا۔ اس طباعت کا ایک نسخہ بیت القرآن لاہور میں موجود ہے۔

سید آقا حسن کی ذیل البیان فی تفسیر القرآن 1933ء بمطابق 1352ھ میں عماد الاسلام پریس میں طبع ہوئی۔

احمد علی لاہور ( متوفیٰ 1962ء بمطابق 1381ھ) نے 1934ء بمطابق 1352ھ میں ترجمہ کیا جو انجمن خدام الدین لاہور نے چھاپا تھا۔ ایک ہزار چھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ حاشیے پر تفسیر نوٹس شاہ عبد القادر دہلوی کے ہیں۔ (اس طباعت کا ایک نسخہ سنٹرل لائبریری بہاولپور میں موجود ہے۔)

عطا ءالرحمن صدیقی کی تفسیر زبدۃ البیان 1934ء بمطابق 1353ھ میں لاہور کے صدیقی پریس سے طبع ہوئی۔

حکیم یٰسین شاہ نے 1935ء بمطابق 1354ھ میں ترجمہ کیا، جو دین محمدی پریس لاہور نے شائع کیا۔ پانچ سو چوبیس 524 صفحات ہیں۔

عبد الدائم جلالی نے 1939ء بمطابق 1358ھ میں ترجمہ قرآن کیا، جو حمیدیہ پریس دہلوی سے شائع ہوا۔ چھ سو اسی صفحات پر مشتمل ہے۔

مولوی محمد علی کی تفسیر مع ترجمہ بیان القرآن 1940ء بمطابق 1359ھ میں تین جلدوں میں شائع ہوئی۔ انھوں انگریزی میں بھی ترجمہ قرآن کیا ہوا ہے۔

مولوی فیروز الدین نے 1943ء بمطابق 1362ھ میں ترجمہ کیا جو فیروز سنز لاہور نے چھاپا ہے۔ صفحات نو سو اٹھانوے 998 ہیں۔

محمد سلیمان فاروقی نے 1947ء بمطابق 1366ھ میں ترجمہ کیا جو دار الاشاعت الفیض امر تسر سے چھپا ہے۔

محمد اشرف جیلانی کچھوچھوی ( متوفیٰ 1961ء بمطابق 1381ھ) نے 1947ء بمطابق 1366ھ میں ترجمہ قرآن کیا۔ مطبع معلوم نہیں۔

فیروز الدین روحی اکبر آبادی کی تفسیر القرآن مع ترجمہ 1950ء بمطابق 1370ھ میں کراچی کے سول اینڈ ملٹری پریس میں طبع ہوا۔ یہ تین پارے الگ الگ شائع ہوئے۔

قاری محمد اسماعیل افضل نے 1952ء بمطابق 1371ھ میں ’ چراغ ہدایت‘ کے عنوان سے شیخ غلام علی اینڈ سنز، علمی پرنٹنگ پریس نے شائع کیا۔ سات سو نوے (790) صفحات ہیں۔ اس ترجمے میں ڈپٹی نذیر احمد کے ترجمہ سے بہت مدد لی گئی ہے۔ اس اشاعت کا ایک نسخہ لیاقت میموریل لائبریری کراچی میں موجود ہے۔

ابو القاسم محمد عتیق نے 1952ء بمطابق 1371ھ میں ’ قرآن عظیم کے نام سے ‘ترجمہ کیا جو لکھنؤ سے شائع ہوا۔

محمد بن ابراہیم جوناگڑھی نے 1954ء بمطابق 1373ھ میں تفسیر ابن کثیر کا اردو ترجمہ کیا۔ یہ پانچ جلدوں میں ہے۔ کل صفحات دو ہزار نو سو سنتالیس ہیں۔ اس کا ایک نسخہ کراچی یونیورسٹی میں بھی موجود ہے۔

مرزا احمد علی نے 1955ء بمطابق 75۔1374 میں ترجمہ مع کیا حواشی ’ لوامع البیان‘ کیا جو کتب خانہ حسینیہ سے شائع ہوا۔

عبد الستار دہلوی نے 1956ء بمطابق 1376ھ میں تفسیر ستاری مع ترجمہ مع احسن التفاسیر، مکتبہ سعود کراچی سے شائع ہوا۔

مرزا بشیر الدین محمود نے 1957ء بمطابق 1377ھ میں ترجمہ تفسیر صغیر مع مختصر حواشی ادارۃ المصنفین ربوہ سے شائع ہوا۔ کل صفحات ایک ہزار چار سو چھیاسٹھ ہیں۔

غلام وارث کا ترجمہ تبیان القرآن یا روح صدق 1960ء بمطابق 1380ھ میں شائع ہوا۔

غلام احمد پرویز نے 1961ء بمطابق 1381ھ میں قرآنی مفاہیم پر مشتمل اردو ترجمہ کیا جسے میزان پرنٹنگ پریس لاہور نے چھاپا ہے۔

مولانا حنیف ندوی نے ترجمہ قرآن الحکیم مع تفسیر 1966ء بمطابق 1386ھ کو طبع کروایا۔ اس کولاہور سے ملک سراج دین پبلیشرز نے شائع کیا۔

ابو محمد مصلح حیدر آبادی کا ترجمہ ’ توضیح القرآن ‘ کے نام سے 1966ء بمطابق 1386ھ میں شائع ہوا۔ اس بمبئی سے علی بھائی شرف علی نے شائع کیا۔

حافظ محمد داؤد خان بن خورشید احمد خاں نے 1968ء بمطابق 1388ھ میں تفسیر ابن کثیر کا اردو ترجمہ ’ الفضل الکبیر‘ کے نام سے کیا ہے جو مکتبہ الریحان کراچی سے دس جلدوں میں شائع ہوا۔ اس طباعت کا ایک نسخہ کتب خانہ ادارہ تحقیقات اسلامی (اسلام آباد) میں موجود ہے۔

سید ابو الاعلیٰ مودودی نے ترجمہ قرآن مجید کیا جو مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی سے شائع ہوا۔ پندرہ سو اسی (1580) صفحات ہیں۔

ابو القاسم عتیق فرنگی محلی نے 1970ء بمطابق 1390ھ میں ترجمہ کیا جو ادارہ بحر العلوم اشاعت القرآن مطبع جاوید سے شائع ہوا۔ اس کے حواشی پر ترجمہ نگار نے مختصر نوٹس بھی دیے ہیں۔ اس طباعت کا ایک نسخہ بیت القرآن، لاہور میں موجود ہے۔

محمد عبد القدیر صدیقی قادری نے 1971ء بمطابق 1391ھ میں ترجمہ مع تفسیر کی جو مطبع سرکار عالی، حیدار آباد دکن سے چھ جلدوں میں شائع ہوا۔ اس طباعت کا ایک نسخہ کراچی یونیورسٹی لائبریری میں بھی موجود ہے۔

محمد سلیم الدین شمسی نے 1972 بمطابق 1392ھ میں ترجمہ اردو اور گجراتی میں چھپا ہے جو ملت پرنٹنگ پریس نے شائع کیا۔ نو سو آٹھ صفحات (908) ہیں۔

الحاج پیر صلاح الدین نے 1974ء بمطابق 1394ھ میں ترجمہ مع تفسیر کیا ہے جو قرآن پبلی کیشنز اسلام آباد نے چار جلدوں میں شائع کیا۔ صفحات دو ہزار نو سو بیالیس (2942) ہیں۔ مترجم احمدی ہے۔

پیر محمد کرم شاہ الازہری نے 1979ء بمطابق 1399ھ میں ترجمہ مع تفسیر ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور سے پانچ جلدوں میں شائع ہوا۔ اور ڈاکٹر صالحہ نے اس کی تاریخ 1964ء بمطابق 1387ھ رقم کی ہے۔

سید محمد شاہ نے 1983ء بمطابق 1403ھ میں ترجمہ مع تفسیر ’مطالب الفرقان فی ترجمۃ القرآن‘ ہے۔ پیکو آرٹ پریس لاہور سے شائع ہوا۔ اس کی نظر ثانی مولانا محمد حنیف ندوی، مولاناشہاب الدین اور پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے کی ہے۔

سید حامد حسن بلگرامی نے 1983ء بمطابق 1403ھ میں ترجمہ مع تفسیر ایچ ایم سعید کمپنی کراچی سے شائع ہوا۔ تین جلدوں میں ہے۔ ڈاکٹر صالحہ نے اس کی تاریخ 1968ء بمطابق 1388ھ رقم کی ہے۔

اول : توضیح القرآن یعنی  آسان ترجمہ قرآن: مفتی محمد تقی عثمانی کا ایک علمی شاہکار ہے۔ یہ ترجمہ اپنی جامعیت کی وجہ سے مترجم کی علمی تحقیق کا اظہار کرتا ہے۔ مترجم نے یہ ترجمہ ساڑھے تین سال کے عرصے میں تحریر کیا ۔ اس کا اکثر حصہ دوران میں سفر لکھا گیا۔ 2008 میں یہ ترجمہ مکمل ہو کر سامنے آیا۔ یہ ترجمہ کئی ایک اقسام کے  ایڈیشنز نیز گوگل ایپ(google app)، پی ڈی ایف (Pdf)اور صوتی تسجیل(صوتی ریکارڈنگ اور پنروتھن )کی شکل میں بھی موجود ہے۔ اس ترجمے نے بہت جلد ایک وسیع حلقہ قارئین بنا لیا ہے اوراب تک لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو چکا ہے اور قریب قریب ہر مہینے مسلسل شائع ہو رہا ہے۔ اگرچہ یہ متوسط درجے کے پڑھے لکھے حضرات کی قرآنی تعلیم کی غرض سے لکھا گیا تھا لیکن علما اور خواص بھی اس سے بدستور استفاد ہ کر رہے ہیں۔ اس میں صاحب ترجمہ کی اپنی ذاتی ہردلعزیزی اور شہرت و پسندیدگی کو بھی عمل دخل ہے۔

دوم: شیخ الحدیث والتفسیر حافظ عبد السلام بھٹوی ؒ  کا ترجمہ قرآن ۔ اردو تراجم میں ایک نہایت عمدہ اور قابل تعریف اضافہ ہے۔ جس میں انہوں نے قرآن مجید کے دل نشیں اسلوب کا لحاظ رکھتے ہوئے لفظ بہ لفظ ترجمہ کرنے اوراسے اردو محاورہ کےمطابق بنانے کی بھر پور کوشش کی ہے اور ترجمہ کرتے وقت عربی الفاظ کے قریب تر اور موزوں ترین الفاظ کا انتخاب کیا ہے۔ اور ترجمہ میں فصاحت وبلاغت کے اصولوں اورعربی زبان کے قواعد کا بھی لحاظ رکھا ہے۔ اس لیے یہ ترجمہ لفظی ہونے کےساتھ ساتھ حسن بیان،عبارت کی روانی اور سلاست کاآئینہ دار بھی ہے۔اردو زبان میں یہ نادر الوجو اور شاہکار ترجمہ ہے۔ جس کے الفاظ کےانتحاب میں مترجم کے40 سال سے زائد عرصے پر محیط دینی علوم وفنون کےتدریسی تجربے اور نصوص کے گہرے اور وسیع مطالعے کی جھلک اورقدیم وجدید تراجم کا واضح عکس نظر آتا ہے۔ اس ترجمہ کوبڑا قبول عام حاصل ہے چند سالوں میں بیسیوں ہزار نسخے اندرون وبیرون ملک قارئین تک پہنچ چکے ہیں۔اور علماء وطلباء میں حافظ عبدالسلام بھٹوی ؒ  کی اس قابل قدر کاوش کو بہت پذیرائی ملی ہے۔ بالخصوص علمی حلقوں میں بھی اسے بہت سراہا گیا ہے۔

سوم: ڈاکٹر طاہرالقادری نے 2005ء بمطابق رمضان المبارک 1426ھ میں عرفان القرآن کے نام سے اردو ترجمہ قرآن مجید مکمل کیا، جسے منہاج  القرآن پبلیکیشنز لاہور نے شائع کیا۔انھوں انگریزی میں بھی ترجمہ قرآن کیا ہوا ہے۔