Famous Urdu Tafsir

موصوف کانام احمد ہے، لکھنو کے مضافات کے رہائشی تھے، برصغیر میں غالباً پہلی فقہی تفسیر ملا جیون ہی کی لکھی گئی ہے، موصوف نے مستقل پورے قرآن کی تفسیر نہیں کی بلکے ان آیات کو مد نظر رکھا ہے جہاں احکام والی آیات ہیں

(برصغیر میں موصوف کا فارسی زبان میں یہ پہلا ترجمہ ہے، پھر اسی کو بنیاد بنا کر آپ کے بیٹوں نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا تھا ) اورشاہ صاحب نے”الزاہراوین” (تفسیر سورہ بقرہ وآل عمران) کے نام سے تفسیر بھی لکھی، موصوف چونکہ بہت نیک اور صالح مزاج تھے جس کی بدولت ان کا لقب ولی اللہ مشہور ہو گیا اور اصل نام قطب الدین احمد منظر عام سے غائب ہو گیا ۔

ان کی پیدائش  اور وفات پانی پت میں ہوئی۔ انہوں نے اپنی کچھ تعلیم شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے حاصل کی تھی۔ ان کی تفسیر مظہری عربی زبان میں دس جلدوں میں ہے، اس میں احادیث کے بہت سے حوالے مستند کتب حدیث سے دئیے گئے ہیں۔موصوف نے اپنے استاد مرزا مظہر جان جاناں کے نام پر اپنی تفسیر کا نام رکھا تھا، موصوف نے اپنی اس تفسیر میں حنفیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کے نقطہ نظر کو مدلل انداز سے پیش کیا ہے، یہ تفسیر محدثانہ اور تصوف کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے، مفسر نے اس تفسیر میں اختلاف قرآء ت، فقہی مسائل اور معتزلی عقائد کے ردکا ذکر کیا ہے۔

آپ کی مختصرتفسیراوربامحاورہ اردو  ترجمہ”موضح القرآن”آج بھی مقبول عام ہے۔اسی لئے بعد کے مفسرین ومترجمین نے اس سے خوب استفادہ کیا ہے۔

ان کی پیدائش امر تسر میں ہوئی اور وفات  سرگودھا میں ہوئی۔ ان کی تفسیر کا نام”تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن” ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے131کتب قرآن و حدیث کے مختلف موضوعات پر لکھیں۔موصوف نے اپنی تفسیر میں آیات کی تفسیر دوسری آیات کی روشنی میں کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور یہی اس تفسیر کی امتیازی خوبی ہے۔

ان کی ولادت روہیل کھنڈ(بریلی،انڈیا) میں ہوئی تھی، آپؒ کی 222کتب ہیں جن میں56 عربی میں، پچاس فارسی میں اور باقی اردو میں مطبوع ہیں، آپ پانچ سال کے تھے کہ آپ کے والد محترم وفات پا گئے، صحا ح ستہ کے اولین تراجم اور شروح حدیث کا سہرا آپ کے سر ہے۔ ان کی تفسیر کا نام”نیل المرام من تفسیر آیات الاحکام”ہے، جو شائع شدہ ہے۔اس کا ترجمہ مولانا الیاس اثری نے کیا ہے جو مطبوع ہے، نواب صاحب کی یہ تفسیر فقہی ہے اس میں انہوں نے قرآن مجید کی احکام والی تقریبا دو سو آیات کی تفسیر کی ہے۔موصوف نواب صدیق کی ایک اور تفسیر”فتح البیان فی مقاصد القرآن”کے نام سے بھی معروف ہے اور اسی طرح اردومیں تفسیر”ترجمان القرآن”کے نام سے مطبوع ہے۔ آپ کی اولاد میں دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔آپ کے شاگردوں میں سلیمان ندوی،مناظر احسن گیلانی،ابو الکلام آزاد اور امین احسن اصلاحی شامل ہیں۔مفسر نے اپنی تفسیر میں الفاظ کے معانی، بیان قرآ ء ت ، اسباب نزول، مسائل فقہ، فقہاء کے اجتہادات غرض تمام پہلووں کا لحاظ رکھا ہے، موصوف نے اپنی تفسیر کے مقدمہ میں عہد صحابہ سے لے کراپنے زمانے تک کے مفسرین کے نقطہ نظر اور اصول تفسیر کا تعارف کروایا ہے، روایت اور درایت کا مطلب سمجھایاہے اور اس کے بعد اپنے مقصد تفسیر اورتفسیری نقطہ نظر کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔

آپ شاہ ولی اللہ ؒ کے بڑے صاحبزادے ہیں۔ یہ نہایت مفصل تفسیرتھی۔ جس کی اکثر جلدیں 1857ء کے ہنگاموں میں ضائع ہوگئی تھیں۔ اور اب صرف سورہ بقرہ اور پارہ (30)عم یتساءلون کی تفسیر موجود ہے۔

آپؒ کی تفسیر8 جلدوں میں شائع ہوچکی ہے۔ یہ قرآنی علوم کا انسائیکلو پیڈیاہے اور اہل علم میں بہت مقبول ہے۔اس تفسیر میں روایت اور درایت دونوں کو جمع کر دیا گیا ہے۔

آپؒ کی تفسیر اہل علم اور عوام میں بہت مقبول و معروف ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ نے 800 کتب، رسائل، کتابچے تحریر فرمائے۔یہ تفسیر تشریح لغات، فصاحت وبلاغت کے نکات اور تصوف وسلوک کے اسرار ورموز کا بے بہا خزانہ ہے، اس میں تراکیب، استنباط اور اختلاف قراء ت کا ذکر ہے۔ اس میں تصوف اور تزکیہ نفس پر خاص مضامین لکھے گئے ہیں۔ اس میں بیضاوی،جلالین،الاتقان،معالم التنزیل، روح المعانی، خازن ،تفسیر عثمانی تفسیر ابن کثیر،در المنثور اور الکشاف کا خلاصہ موجود ہے، یہ تفسیر پہلی بار بارہ جلدوں میں چھپی  تھی۔

آپ نے علی گڑھ یونیورسٹی سے زیادہ تعلیم حاصل کی۔ اور آخری عمر میں آپ نے اعظم گڑھ کے قریب سرائے میر میں مدرسۃ الاصلاح بنایا، قرآن و علوم القرآن کی مناسبت سے آپ کی مفرادات القرآن، اسالیب القرآن، ایمان فی اقسام القرآن اور نظام القرآن و تاویل القرآن مشہور ہیں۔

آپ کی پیدائش مکہ معظمہ میں ہوئی اور وفات ہندوستان میں ہوئی۔ ان کی تفسیر دو جلدوں میں مطبوع ہے مگرمکمل نہیں ہے۔ موصوف عالم اسلام کی ایک نابغہ روزگار ہستی تھے جنہوں نے متعدد کتب بھی لکھیں مگر ان کی شہرت کا سبب یہی تفسیر بنی۔

ان کی تفسیر انگریزی،اردو دونوں زبانوں میں 8 جلدوں میں شائع ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے162 کتب، رسائل بھی تحریر فرمائے۔ مفتی محمد شفیع نے صرف پانچ سال میں مکمل کی تھی۔ موصوف کی تفسیر میں فقہی مسائل، عصری ضروریات وتہذیب اور ملحدین کے شکوک وشبہات و اعتراضات کا ازالہ موجود ہے اس تفسیر میں ہر سورۃ سے پہلے سورۃ کا اجمالی خلاصہ بیان کیا جاتا ہے اور اہم عنوانات کا ذکر موجود ہے۔مولانا ادریس کاندھلوی کی تفسیر بھی معارف القرآن کے نام سے ہے مگر وہ چھ جلدوں میں ہے۔

آپ حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کی تفسیر کا انگریزی اور اردو کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے متعدد جدید مسائل پر بہت تفصیل کے ساتھ قلم اٹھایا ہے۔اس تفسیر میں موصوف نے ترجمہ قرآن کی بجائے ترجمانی کو اپنایا ہے، اس تفسیر میں موصوف نے عقلی استدلال،سائنٹیفک اسلوب بیان، زور دار ادبی زبان، اہم تمدنی مسائل پر بحث، تفسیری اختلافات کا ناقدانہ جائزہ، جغرافیائی نقشے اور موضوعات کا انڈیکس اعتدال اور جداگانہ اسلوب بیان صرف اسی تفسیر کا طرہ امتیاز ہے۔یہ تفسیر گروہی تعصب،اسرائیلی روایات، اور تما م کلامی بحثوں سے پاک ہے اس میں اعتدال کو اپنایا گیا ہے نیز تقابل ادیان کو عمدہ اسلوب میں بیان کیا گیا ہے اور ہر جلد کے آخر میں مطالب وموضوعات کی فہرست کو ذکر کیا گیا ہے اور ہر سورت کے آغاز میں سورت کے تمام اہم مضامین کو نکات کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔موصوف کو1979ء کو شاہ فیصل ایوارڈ ملا تھا۔مولانا مودودی ؒ کی تفسیر چھ جلدوں میں مطبوع ہے۔

(آپ بھارت کے ضلع اعظم گڑھ کے  ایک گاوں میں پیدا ہوئے تھے، آپ نے تدبر قرآن 23 سال میں مکمل کی تھی۔شاید موصوف مدرسۃ الاصلاح میں پڑھنے اور پڑھانے کی وجہ سے اصلاحی کہلوائے۔آپ نے لاہور سے1959ء کو ماہنامہ میثاق رسالہ کا آغاز کیا تھا۔جس طرح مولانا مودودی نے ترجمان القرآن میں تفسیر کا سلسلہ شروع کیا تھا اسی طرح مولانا امین احسن اصلاحی نے میثاق میں شروع کیا تھا۔ابتداء میں یہ تفسیر آٹھ جلدوں میں تھی اور اب یہ نو جلدوں میں مطبوع ہے۔

آپ ضلع سرگودھا کے شہر بھیرہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کی تفسیر پانچ جلدوں میں انگریزی اور اردو میں شائع شدہ ہے۔ اس تفسیر میں ہر سورۃ سے پہلے سورۃ کا تعارف، اس کا شان نزول، اس کے اہم اغراض ومطالب، اس کے مضامین کا خلاصہ۔ یہ تفسیر بریلوی مسلک کی نمائندہ تفسیر ہے اس میں دیگر کئی فرقوں کے بعض عقائد کا مدلل رد بھی کیا گیا ہے۔

موصوف نے اردو زبان میں بڑی جامعیت کے ساتھ سائنسی بحوث کو مد نظر رکھتے ہوئے4 جلدوں میں یہ تفسیر لکھی ہے، مفسر موصوف چونکہ سائنس کے مضمون کے ماہر تھے اس لئے ان کی تفسیر میں سائنس کا رنگ غالب نظر آتا ہے اور جہاں تک مسائل واحکام کی مناسبت سے تفسیر ہے تو وہاں بھی عقل کی بجائے روایت ودرایت کے معیار کو مد نظر رکھا ہے۔اس لئے اردو تفاسیر میں اس کو تفسیر بالماثور اور تفسیر العلمی بھی کہا جا سکتا ہے۔

آپ کی یہ تفسیر انتہائی مختصر مگر جامع ایک جلد میں مطبوع ہے، عرب میں برصغیر کے حجاج کو بطور تحفہ یہ پیش کی جاتی ہے جو کہ اس کی مقبولیت کا اہم ثبوت ہے۔

مولانا احمد رضا خان بریلوی کا ترجمہ قرآن” کنز الایمان ” پر حاشیہ مولانا نعیم الدین مراد آبادی کا”خزائن العرفان” کے نام سے ہے۔ اور یہ بریلوی مکتبہ فکر کا پہلا ترجمہ اور تفسیر ہے۔

آپؒ انڈیا میں پیدا ہوئے اور لاہور میں فوت ہوئے تھے، یہ منکرین احادیث میں سے ہیں،ان کی اس تفسیر کو تفسیر بالرائے مذموم کہا جاتا ہے کیونکہ مفسر نے مسلمہ اصول و ضوابط کو نظر انداز کرتے ہوئے تفسیر کی ہے۔ڈاکٹر محمد دین قاسمی نے اس تفسیر  کی تمام جلدوں کا تحقیقی و تجزیاتی نقطہ نظر سے تجزیہ پیش کیا ہے۔

موصوف نے برصغیر میں احیاء علم کی تحریک برپا کی تھی جس میں دینی ودنیاوی علوم شامل تھے، موصوف مسلمانوں کی ہمدردی کے ساتھ ا سلام دشمنوں (کفار)کو بھی مسلمانوں کے قریب لانے کی کوشش کرتے رہے، اور اسی وجہ سے بعض مسلمہ اسلامی عقائد کی ایسی وضاحت کی کہ کفار کو اسلام کا صحیح تصور سمجھاتےسمجھاتے ان عقائد کی غلط تابیر کر دیتے تھے۔ نیز موصوف نے ولیم میور کے جواب میں سیرت پر   “خطبات احمد یہ”کو رقم بھی کیا تھا۔موصوف کی تفسیر سترہویں پارے تک پہنچی تو یہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے تھے، یہ تفسیر جدید ذہن کو سامنے رکھ کر لکھی گئی تھی اسی وجہ سے اس میں معجزات، جادو، ملائکہ اور جنوں وغیرہ  کے وجود کے انکار کے ساتھ ان کی عجیب وغریب تاویل کی گئی ہے، جس کی بناء پر علماء نے ان پر کفر کے فتوے لگائے۔ان کی تفسیر کی چھ جلدیں ان کی زندگی میں طبع ہوئی اور ایک بعد میں ہوئی۔1870ء کو موصوف نے رسالہ”تہذیب الاخلاق”جاری کیا۔آپ نے عیسائی مشنریوں اور مسلمانوں میں باہم قربت پیدا کرنے کے لئے کتاب” تبیین الکلام” بھی لکھی ، جس میں قرآن اور بائبل کے مضامین کا موازنہ کیا گیا ہے۔

موصوف دریاآباد میں پیدا ہوئے جو کہ ہندوستان میں فیض آباد اور لکھنو کے درمیان واقع ہے۔موصوف چھیاسی سال کی عمر پا کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔موصوف نے یہ تفسیر انگریزی زبان میں  1933-1939ء کے عرصہ میں مکمل کی۔مگر مطبوع 1961ء کو ہوئی تھی۔موصوف نے اس تفسیر میں اپنی پیش رو انگریزی تفاسیر کے ساتھ مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر بیان القرآن سے خوب استفادہ کیا۔موصوف نے انگریزی تفسیر سات سال میں مکمل کی تھی پھر بعد میں اردو تفسیر لکھی جو کہ1944ء کو مکمل ہوئی اور1962ء کو طبع ہوئی۔مفسر کی دونوں تفاسیر کی الگ الگ نمایاں صفات ہیں۔

بریلوی مکتبہ فکر کی مشہورتفاسیر میں سے تفسیر نعیمی،تفسیر ضیاء القرآن،تبیان القرآن قابل ذکر ہیں۔

دیوبندی مکتبہ فکر کی مشہور تفاسیر میں سے تفسیر عثمانی از شبیر احمد عثمانی،معارف القرآن وغیرہ قابل ذکر ہیں

اہل حدیث مکتبہ فکر کی مشہور تفاسیر میں سے  تیسیر القرآن، تفسیر احسن البیان، تفسیر ثنائی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔