سیف البحر تھا ، جس کے کمانڈر حضرت امیر حمزہ ؓ تھے جس میں 30 صحابہ نے شرکت کی تھی۔
بدر کا مقام مدینہ سے80 میل کے فاصلے پر ہے اور یہ غزوہ 17 رمضان2 ہجری/17 مارچ624ء کو ہوا تھا۔ غزوہ بدر میں313 مجاہدین میں سے 83 مہاجر باقی انصار تھے اور کل14 شہید ہوئے ان میں سے 6 مہاجر اور8 انصار تھے جبکہ کفارجن کی تعداد1000 تھی ان میں سے 70 قتل ہوئے۔ غزوہ بدر میں فتح کی خوشخبری سنانے کے لئے مدینہ کی اوپر والی بستیوں میں عبد اللہ بن رواحہ اور نیچے والی بستیوں میں زید بن حارثہ ؓ کو روانہ کیا گیا تھا۔اس غزوہ میں حضرت عباس سے20، اوقیہ فدیہ لیا گیاتھا۔جنگ بدر میں عمر ؓ کے ہاتھوں ان کا ماموں عاص بن ہشام قتل ہوا تھا۔ میدان بدر میں نبیؐ نے عکاشہ بن محصن کو تلوار ٹوٹ جانے کے بعد چھڑی پکڑائی تھی۔اس غزوہ میں سب سے پہلے اسود بن عبد الاسد اور حضرت حمزہ ؓ کے درمیان مڈ بھیڑہوئی تھی تو حضرت حمزہ ؓ نے اس کو واصل جہنم کیا، پھر اگلے مرحلے میں قریش کے تین شہسوار میدان میں اترے ان میں ایک عتبہ بن ربیعہ، دوسرا شیبہ بن ربیعہ اور تیسرا ولید بن عتبہ تھا ان کے مقابلے میں تین مسلمان عبیدہ بن حارثؓ، حمزہ ؓ، علی ؓسامنے آئے۔ عبیدہؓ کا مقابلہ عتبہ سے ہوا، حمزہ ؓ کا مقابلہ شیبہ سے ہوا، علی ؓ کا مقابلہ ولید سے ہوا۔اس جنگ میں اللہ تعالی نے ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ مسلمانوں کی مدد فرمائی تھی۔غزوہ بدر میں صرف حضرت زبیر بن عوام ؓ اور مقداد ؓ کے پاس گھوڑے تھے۔ضمضم بن عمرو الغفاری نے سفیان کے قافلے کی مکہ والوں کو اطلاع دی تھی۔اور پھر بدر میں مشرکین کی شکست کی مکہ میں خبر حسمان بن ایاس خزاعی نے پہنچائی تھی۔
2 ہجری کو ہو اتھا اس موقع پر ابو لبابہ بن عبد المنذر ؓ کو مدینہ کا انتظام سونپا اور خود جا کر آپؐ نے یہود کے قبیلہ کا محاصرہ شوال15 کو شروع کیا اور ذوالقعدہ تک یہ محاصرہ جاری رہا پھر انہوں نے کچھ شرائط پر شکست تسلیم کر لی اور آپؐ نے مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا۔یہ لوگ پیشہ کے اعتبار سے سونار، لوہار اور برتن ساز تھے، ان کے مردان جنگ کی تعداد اس وقت تقریبا سات سو کے قریب تھی۔
2 ہجری ماہ ذوالحجہ میں ابو سفیان کی قیادت میں200 سوار مدینہ پر حملہ کی نیت سے آئے مگر ناکام ہو کر واپس چلے گئے تھے۔
7 شوال3 ہجری/23 مارچ625ء کو احد پہاڑ پر برپا ہوا۔ احد پہاڑ مدینہ سے شمال میں3 میل کے فاصلہ پر ہے۔ جنگ احد میں درے میں پچاس تیر انداز حضرت عبد اللہ بن جبیر ؓ کی قیادت میں تھے اور دوسری طرف اسی درے کی جانب سے خالد بن ولید نے پہلے تین دفعہ حملہ کیا مگر چوتھی دفعہ کامیاب ہوئے۔اس میں مسلمانوں کی تعداد1000 تھی اور مشرکین مکہ کی تعداد3000 تھی اور 15 عورتیں تھیں، اس غزوہ میں 75مسلمان شہید ہوئے اور27 کافر ہلاک ہوئے۔بعض جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ سترمسلمان شہید ہوئے ان میں 65 انصار تھے ایک یہودی اور چار مہاجرین تھے اور کافر37 ہلاک ہوئے تھے۔اس جنگ میں مشرکین کے لشکر کی قیادت ابو سفیان کے پاس تھی۔ کفار کے پاس تین ہزار اونٹ اور دو سو گھوڑے تھے۔ جنگ احد کے موقع پر مدینہ کی قیادت حضرت ابن ام مکتوم کو سونپی تھی۔جنگ احد میں سب سے پہلے مشرکین کی طرف سے طلحہ بن ابی طلحہ عبدری اور مسلمانوں کی طرف سے حضرت زبیرؓ کے درمیان مقابلہ ہوا۔اور اسی جنگ میں آپؐ نے حضرت زبیر ؓ کی تعریف کرتے ہوئے حواری رسول کا لقب دیا تھا۔
ربیع الاول4 ہجری کو برپا ہوا ، اس موقع پر آپؐ نے مدینہ میں عبد اللہ بن ابی کو نائب مقرر کیا۔سورہ حشر میں بھی ان کا ذکر ہے، چھ یا سات دن آپؑ نے صحابہ سمیت ان کا محاصرہ کیا مگر انہوں نے شکست تسلیم کر لی تو آپؐ نے مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا۔
شوال، ذوالقعدہ5 ہجری بمطابق مارچ 627ء کومدینہ کے قریب برپا ہوا۔اس میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً3000 تھی جبکہ کفار کی تعداد دس ہزار تھی، اس میں چھ مسلمان شہید ہوئے اور آٹھ کافر ہلاک ہوئے۔خندق حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورے سے مدینہ کے تحفظ کے لئے مدینہ منورہ کی شمالی جانب کھودی گئی۔٭۔ خندق دس دس مجاہدین پر مشتمل تین سو ٹولیوں نے بیس بیس گز یعنی ساٹھ فٹ خندق کھودی، خندق 15 فٹ چوڑی، 15 فٹ گہری اور ساڑھے تین میل لمبی تھی جس کی کھدائی بیس دن میں مکمل ہوئی۔ کفار مکہ کے چند نامور بہادروں میں سے عمرو بن عَبد وُد، عکرمہ بن ابی جہل، اور ضرار بن خطاب نے ایک تنگ مقام سے خندق کو عبور کر لیا تھا۔ان میں سے عمر بن عبد ود کو حضرت علی نے قتل کر دیا اور باقی دو واپس بھاگ گئے تھے۔
شوال 5 ہجری کو پیش آیا اور اس کا سرغنہ عبد اللہ بن ابی منافق تھا اور اس میں ملوث مسلمانوں میں سے مسطح بن اثاثہ، حسان بن ثابت اور حمنہ بنت جحش تھیں۔
سوموار یکم ذوالقعدہ6 ہجری کو چودہ سو صحابہ کرام کے ساتھ آپؐ (رات کو خواب میں عمرہ دیکھنے پر صبح) مکہ عمرہ کی نیت سے چل پڑے، حدیبیہ مقام پر پہنچے تو آگے سے قریش مکہ نے آکر روک دیا اور آئندہ سال عمرہ کرنے اور تین دن مکہ میں قیام کرنے کی اجازت دے کر معاہدہ کر کے ان کو واپس لوٹا دیا۔پھر ذوالقعدہ7 ہجری کو آپ ؐ نے2 ہزار صحابہ کی معیت میں عمرۃ القضاء ادا کیا اور مدینہ کا انتظام ابو رہم غفاری کے سپرد کیا۔حدیبیہ مکہ سے انیس میل کے فاصلہ پر ہے۔صلح حدیبیہ کی اہم شرائط یہ تھیں :1۔ مسلمان اس سال عمرہ کئےبغیر واپس چلے جائیں گے،2۔ اگلے سال عمرہ کے لئے آئیں اور تین دن سے زیادہ مکہ میں قیام نہ کریں،3۔ تلوار کے علاوہ کوئی ہتھیار ساتھ نہ لائیں اورتلوار بھی نیام میں ہو،4۔ جو مسلمان مکہ میں مقیم ہیں ان کو ساتھ لے کر نہ جائیں اور اگر کوئی مسلمان مکہ میں ٹھہرنا چاہے تو اسے نہ روکیں،5۔ مکہ کا کوئی شخص کافر یا مسلمان مدینہ چلا جائے تو اسے واپس کر دیا جائے گا، لیکن اگر کوئی مسلمان مکہ آجائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا، 6۔ قبائل عرب کو اختیار ہو گا کہ فریقین میں سے جس کے ساتھ چاہیں معاہدہ کر لیں،7۔ دس سال تک مسلمان اور قریش آپس میں جنگ نہیں کریں گے۔ یہ معاہدہ قریش مکہ کی طرف سے سہیل بن عمرو نے اور مسلمانوں کی طرف سے حضرت علی ؓ نے تحریر کیا تھا۔
محرم7 ہجری بمطابق مئی628ء کو خیبر مقام پرہوا، یہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان غزوہ ہوا، اس میں مسلمان چودہ سو اور یہودی دس ہزار سے زائد تھے، اس غزوہ میں 18 مسلمان شہید ہوئے اور93 یہودی ہلاک ہوئے۔ خیبر مدینہ سے150 کلو میٹر عرب کے شمال مغرب میں واقع ہے۔یہودیوں کے پانچ قلعے تھے ان میں سب سے مضبوط قلعہ قموص تھا اور مرحب یہودی اسی میں رہتا تھا اور اس کو حضرت علی ؓ نے قتل اسی قلعہ میں کیا تھا۔ بیس دن کے محاصرہ کے بعد یہ فتح ہوا تھا۔ غزوہ خیبر میں مدینہ کے منتظم سباع بن عرفظۃ تھے
خیبر کے بعد ربیع الاول 7 ہجری کو نبیؐ نے سات سو صحابہ کرام ؓ کے ساتھ بنو غطفان کے ساتھ لڑائی کا سفر کیا اور مدینہ منورہ کا انتظام عثمان بن عفان کے حوالے کر کے بلاد نجد کا رخ کیا، اس جنگ میں آپؐ نے پہلی دفعہ نماز خوف پڑھائی تھی۔
موتہ شام کا علاقہ تھا یہ علاقہ روم کے زیر اثر تھایہاں آباد قبیلہ بنو غسان عیسائی مذہب کا پیرو کار تھا اور ان کا سردار شرحبیل بن عمرو انتہائی متکبر تھا، اس نے نبؐی کے دعوتی خط لے کر آنے والے سفیرحضرت حارث بن عمروؓ کو انتہائی بے دردی سے قتل کیا تھا جس کی وجہ سے لڑائی کی نوبت آئی، جیسے ہی آپؐ کو حارث بن عمرو ؓ کی شہادت کی خبر ملی تو آپ ؐ نے فوری طور پر تین ہزار مجاہدین کو حضرت زید بن حارثہؓ کی قیادت میں روانہ فرما دیا تھا، دشمنان اسلام کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تھی، اس غزوہ میں یکے بعد دیگرے مسلسل تین لیڈر حضرت زید ؓ پھر حضرت جعفر طیار ؓ پھر حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ شہید ہوئے اور ان کے بعد حضرت خالد بن ولید ؓ کی قیادت میں فتح ہوئی۔ اور غزوہ میں بہادری کی وجہ سے حضرت خالد کو نبیؐ نے سیف اللہ کا لقب دیا تھا۔ یہ غزوہ 8ھ کو ہوا ہے۔
کا واقعہ رمضان8 ہجری بمطابق جنوری 630ء کو پیش آیایہ غزوہ صلح نامہ حدیبیہ توڑنے پر پیش آیا تھا،مدینہ سے 10 رمضان 8ھ کو سفر کا آغاز کیا، یہ غزوہ مسلمانان مدینہ اور مشرکین مکہ کے درمیان ہوا تھا، اس میں مسلمانوں کی تعداد دس ہزار اور کفار تمام مشرکین مکہ تھے، اس موقع پر دو(2) مسلمان(خنیس بن خالد، کرز بن جابر فہری) شہید ہوئے اور تیرہ(13) کا فر ہلاک ہوئے۔ مکہ معظمہ 8 ہجری 20 رمضان بروز جمعہ کو فتح ہوا تھا۔اس موقع پر آپؐ کا خیمہ حجون مقام پر نصب کیا گیا تھا۔فتح مکہ کے موقع پر ابو بکر صدیق ؓ نبی ؐ کے ساتھ القصواء اونٹنی پر سوار ہو کر مکہ میں داخل ہوئے تھے۔مدینہ کانائب ابو رہم غفاری کو بنایا۔
نبیؐ وادی حنین کی طرف بروزمنگل 10 شوال 8ہجری کو پہنچے اور بنو ہوازن سے مقابلہ ہوا تھا۔میدان حنین مکہ سے 9 میل کے فاصلے پر ہے یہاں قبیلہ بنو ہوازن اور بنو ثقیف آباد تھا۔ٗجبکہ حنین ایک وادی کا نام ہے جو طائف شہر سے شمال مشرقی جانب تقریباً40 میل کے فاصلے پر جبل اوطاس میں واقع ہے۔صرف اس موقع پر مسلمانوں کی تعداد دشمنان اسلام سے کئی گنا زیادہ تھی (مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار کے قریب تھی جب کہ بنو ہوازن اور بنو ثقیف کی تعداد چار ہزار کے قریب تھی )
رجب9 ہجری بمطابق اکتوبر630ء کو مقام تبوک میں ہوا۔تبوک مدینہ سے شمال میں تقریباً686 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک وادی کا نام ہے۔ یہ غزوہ مسلمانان مدینہ اور روم وشام کے عیسائیوں کے درمیان ہوا مگر لڑائی کے بغیر فتح حاصل ہو گئی تھی۔ اس میں مسلمانوں کی تعداد تیس ہزار اور روم کے عیسائیوں کی تعداد چالیس ہزار تھی۔اسلامی لشکر نے19 دن تبوک کے میدان میں قیام فرمایا تھا۔اس دوران حضرت علی ؓ کو مدینہ کا انتظام سونپ کر گئے تھے۔
دورنبوی کے تمام غزوات میں 6564لوگ قیدی بنے،7323کافر قتل ہوئے اور259مسلمان شہید ہوئے۔