Modern Thoughts and systems

سیکولرزم

سیکولرزم انگلش کا لفظ ہے جسکو عربی میں العلمانیۃ کہتے ہیں۔ اور سیکولرزم کا صحیح معنی”لادینیت “ہے یہ زندگی کو بغیر دین کے گزارنے کا نام ہے۔ ہماری مراد یہ ہے کہ جسکی سیاسی زندگی کے احکام لادینیت پر مبنی ہوں اور یہ ایسی اصطلاح ہے جس کا علمی مذہب اور علم کے نام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ دعوت یورپ میں پروان چڑھی اور استعماری قوت، تبلیغ اور کمیونزم سوچ کے ساتھ تمام دنیا میں پھیل گئی۔1780ء میں فرانس کے انقلاب سے پہلے ہی یہ دعوت بہت سے علاقوں میں پھیل گئی۔ اور انقلاب فرانس کے بعد اسکا پھیلاو بہت وسیع ہوگیا اور اس کا نظریہ و منہج واضح ہوگیا۔

1۔ بعض علمانی اللہ تعالیٰ کے وجود کا کلی طور پر انکار کرتے ہیں۔2۔ بعض علمانی وجود الٰہی پر ایمان تو رکھتے ہیں لیکن وہ اللہ اور حیات انسانی کے درمیان کسی بھی قسم کے تعلق نہ ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں۔3۔ علمانیوں کے نزدیک عالم روحانیت اور مادیت کے درمیان تفریق کی مضبوط دیوار ہے اور روحانیت انکے نزدیک سلب مادیت کے قائم مقام ہے۔4۔ سیاست میں دین کی لا تعلقی اور مادی بنیادوں پر قیام زندگی کا نظریہ رکھتے ہیں۔5۔ اسلام، قرآن اور نبوت کے بارے میں طعنہ زنی کرتے ہیں۔ 6۔ وہ گمان کرتے ہیں کہ اسلامی فقہ رومی قانون سے ماخوذ ہے۔7۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام ترقی کے مخالف ہے اور دقیانوسی کی طرف لے کر جاتا ہے۔8۔ مغربی منہج کے مطابق آزادی نسواں کی دعوت دیتے ہیں۔ 9۔ نئی نسلوں کی لادینی منہج پر تربیت کرنا وغیرہ۔

علمانیہ تحریک کی ابتدا یورپ میں ہوئی اور1789ء کے فرانسیسی انقلاب کی وجہ سے اس تحریک کو سیاسی وجود بھی حاصل ہوگیا۔ اور انیسویں صدی میں علمانیہ یورپ میں پھیل گئی اور بڑے عالمی ممالک کے شمول کی وجہ سے سیاست اور حکومت میں منتقل ہوگئی۔اور پھر بڑے بڑے ممالک میں سیکولرزم تحریک وباء کی طرح پھیل گئی چند ممالک درج ذیل ہیں: مصر، ہند، جزائر، یتونس، مغرب، ترکی، عراق و شام، اور اسی طرح انڈونیشیا اور ایشیاء کے بڑے بڑے جنوب مشرقی ممالک علمانیہ حکومت کے ماتحت ہوگئے۔

(1) طہ حسین (2) جمال عبدالناصر (3) مصطفی کمال (4) نہرو(5) قاسم امین (6) انور سادات وغیرہ۔

کیمونزم

  کیمونزم انگلش کا لفظ ہے اسکو عربی میں الشیو عیہ کہتے ہیں اور یہ ایسی فکری تحریک ہے جسکی بنیاد الحاد پر ہے اور اس چیز پر کہ مادہ ہی ہر چیز کی بنیاد ہے۔

یہ مذہب المانیا میں مارکس اور انجلز کے ہاتھوں شروع ہوا۔ یہودی منصوبہ کے تحت اسکو عملی جامہ انتہا پسند اشتراکی انقلاب جو کہ روس میں1917ء کو آیا تو اس وقت پہنایا گیا تھا۔ پھر اس کو وسعت آگ اور گولی کی بنیاد پر ملی تھی۔ سب سے پہلے کیمونزم کارل مارکس (جو1818ء میں پیدا ہوا)نے قبول کیاتھا۔ اس کے بعد اسکا ہمنوا فروریک انجلز بنا تو اس نے اس نظریاتی مذہب کو پھیلانے میں کافی تعاون کیا۔ پھر تحریک کو مزید فروغ دینے کے لئے لینن نے سر توڑ کوشش کی۔ اور اسکے بعد سٹالن اس تحریک کا بانی بنا تو پھر پانچویں نمبر پر ٹروٹسکی کی باری آئی جو خارجی معاملات کا والی بنا۔ اور یہ آدمی نرم طبیعت کا مالک تھا۔

1۔انکے نزدیک ہرچیز حکومت کی ہے اور حکومت کی ہر چیز عوام کی خدمت میں ہے۔

2۔انکے نزدیک کوئی بھی کسی چیز کا اصل مالک نہیں ہے۔

3۔یہ لوگ تین شخصیات پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان بھی اس حد تک کہ انکے بیانات کیمونزم کے نزدیک حرف آخر ہیں اور یہی انکے نزدیک خدا، رسول بلکہ ہر چیز ہیں اور تین چیزوں کا انکار کرتے ہیں۔ ایمان والی تین چیزیں یہ ہیں (۱) کارل (۲) سٹالن(۳) لینن۔ اور انکار والی چیزیں (۱) خدا (۲) ذاتی ملکیت (۳) دین۔

4۔انکے نزدیک مادہ اصل ہے۔ یہ نظریہ70 سال تک دنیا میں رہا لیکن پھر اپنی موت آپ مرگیا۔

5۔انکا قرآن کے بارے میں خیال ہے کہ حضرت عثمانؓ کے دور میں لکھا گیا ہے لہذا یہ کتاب قابل یقین نہیں ہے۔

6۔انکا عقیدہ ہے کہ آخرت نہیں ہے اور نہ ہی اس دنیا کے علاوہ کسی جگہ جزا سزا کا تصور ہے وغیرہ۔

وہ ممالک جو خود کفیل نہ تھے تو ان میں کیمونزم، قوت اور پست طبقے کو سبز باغات دکھا کر داخل ہوئے تھے۔ اور یہ تحریک مسلمانوں کے ملک میں وباء کی طرح پھیل گئی۔ اہم ممالک کے نام درج ذیل ہیں: مصر، لیبیا، فلسطین، اردن، شام وغیرہ۔

سوشلزم

سوشلزم ایک اقتصادی نظام ہے جو سرمایہ داری کے برعکس، مشترکہ ملکیت، دولت کی مساوی تقسیم، اور کمیونٹی کی بہتری کو فروغ دیتا ہے۔ اس نظام میں وسائل کی ملکیت اور کنٹرول اجتماعی طور پر ہوتی ہے. یعنی حکومت یا عوام کے زیر انتظام تاکہ تمام افراد کو برابری کی بنیاد پر فوائد مل سکیں۔ سوشلزم کا مقصد دولت کی انتہائی تفریق کو کم کرنا اور ایک مساوی معاشرتی ڈھانچہ قائم کرنا ہے جہاں ہر شخص کو بنیادی ضروریات کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔مختلف معاشرے سوشلزم کی مختلف شکلوں کو اپنا سکتے ہیں جو ان کی تاریخی، ثقافتی اور اقتصادی ضروریات پر مبنی ہوں۔ جیسے جیسے عالمی معیشت ترقی کر رہی ہے، سوشلزم کے اصول معاشی برابری، انصاف، اور اقتصاد کے منظم انتظام پر مبنی بحث کو نئی جہتیں فراہم کرتے ہیں۔ اس نظام کی کامیابی کسی بھی معاشرے میں اس کے اطلاق اور عوام کی مشارکت پر منحصر ہوتی ہے جو کہ ایک کثیرالجہتی اور مسلسل ترقی پذیرعمل ہے۔ اس نظام کا ہدف یہ ہے کہ پیداوار کے ذرائع کی ملکیت یا کنٹرول پوری کمیونٹی کے پاس ہو، تاکہ محنت سے پیدا شدہ دولت کا فائدہ چند افراد کے بجائے سب کو پہنچے۔

سوشلزم کی درج ذیل کلیدی خصوصیات ہوتی ہیں

 اجتماعی ملکیت

سوشلزم کی بنیاد پیداوار کے ذرائع جیسے کارخانے، زمین اور مشینری کی اجتماعی ملکیت ہے۔ یہ ملکیت مختلف شکلیں لے سکتی ہے، بشمول ریاستی ملکیت، کوآپریٹو ملکیت، یا اجتماعی ملکیت۔ مقصد یہ ہے کہ دولت اور طاقت کے ارتکاز کو چند لوگوں کے ہاتھوں میں روکا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ معاشی وسائل سے معاشرے کے تمام افراد کو فائدہ پہنچے۔

منصوبہ بند معیشت

سوشلزم اکثر منصوبہ بند معیشت کی حمایت کرتا ہے، جس میں پیداوار اور تقسیم کے فیصلے ایک مرکزی ادارے کے ذریعے لیے جاتے ہیں۔ اس کا مقصد وسائل کو بہترین طریقے سے بانٹنا، لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنا، اور طویل مدتی معاشی اہداف کو پورا کرنا ہے۔ یہ نظام سرمایہ دارانہ معیشت کے مارکیٹ پر مبنی نظام کے برعکس ہے، جہاں مارکیٹ کی طلب اور رسد پیداوار اور تقسیم کو طے کرتی ہے۔

دولت کی دوبارہ تقسیم

سوشلزم کی اہم بات یہ ہے کہ وہ دولت کو دوبارہ تقسیم کرکے زیادہ سے زیادہ معاشی برابری پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اس دوبارہ تقسیم کا عمل مختلف طریقوں سے ہو سکتا ہے، جیسے کہ بڑھتی ہوئی ٹیکس کی شرحیں، معاشرتی بہتری کے منصوبے، اور عوام کو صحت اور تعلیم جیسی بنیادی خدمات فراہم کرنا۔ سوشلزم کا مقصد امیر اور غریب کے درمیان فرق کو کم کرکے ایک برابری پر مبنی معاشرہ بنانا ہے۔

سماجی بہبود پر زور

سوشلسٹ نظام سماجی فلاح و بہبود پر زور دیتا ہے. یہ نظام انفرادی دولت اکٹھا کرنے کی بجائے کمیونٹی کی معاشی  ترقی  کو اہمیت دیتا ہے۔ اس نظام میں صحت کی دیکھ بھال، تعلیم، اور رہائش جیسی ضروری خدمات تک ہر شخص کی رسائی کو یقینی بنایا جاتا ہے اور انہیں بنیادی حقوق تصور کیا جاتا ہے۔

جمہوری کنٹرول

اگرچہ ہر قسم کی سوشلزم میں یہ آئیڈیل خصوصیت نہیں ہوتی، بہت سارے لوگ چاہتے ہیں کہ معیشت اور سیاست کے فیصلے جمہوری طریقے سے کیے جائیں۔ یہ جمہوری سوشلزم ہے جو کوشش کرتا ہے کہ جمہوریت کو سوشلسٹ معیشت کے اصولوں کے ساتھ ملا کر چلایا جائے تاکہ عوام کا کنٹرول ہو کہ معیشت کیسے ترقی کرتی ہے اور وسائل کی تقسیم کیسے ہوتی ہے۔

سوشلزم کوئی ایک ساکن نظریہ نہیں ہے بلکہ نظریات اور طرز عمل کا ایک مجموعہ ہے۔ اس کی قابل ذکر شکلوں میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

مارکسسٹ-لیننسٹ سوشلزم: اس میں ایک مرکزی پارٹی کی مدد سے انقلابی تبدیلیاں لائی جاتی ہیں تاکہ کمیونسٹ معاشرہ قائم کیا جا سکے۔ اس دوران ریاست کا کردار عبوری ہوتا ہے یعنی وقتی طور پر ریاست سوشلزم کو فروغ دیتی ہے۔

ڈیموکریٹک سوشلزم:یہ سوشلزم کی ایسی شکل ہے جو جمہوریت کے سیاسی نظام کو معاشی سوشلسٹ اصولوں کے ساتھ ملا کر چلتی ہے۔ یہاں معیشت کو جمہوری طریقے سے چلانے پر زور دیا جاتا ہے۔

مارکیٹ سوشلزم: اس میں مارکیٹ کے اصولوں کو برقرار رکھا جاتا ہے لیکن پیداوار کے ذرائع کی ملکیت اجتماعی ہوتی ہے۔ یعنی پیداوار اور تقسیم مارکیٹ کے میکانزم پر منحصر ہوتی ہیں لیکن ملکیت مشترکہ ہوتی ہے

نیشنل ازم

نیشنل ازم یا قوم پرستی ایک سیاسی اور سماجی نظریہ ہے جو ایک خاص قوم، قومیت، یا قومی شناخت کی اہمیت کو زور دیتا ہے۔ نیشنل ازم کا بنیادی مقصد کسی قوم یا قومیت کی خود مختاری، آزادی، اور یکجہتی کو بڑھاوا دینا ہوتا ہے۔  

نیشنل ازم ایک پیچیدہ نظریہ ہے جو مختلف اوقات اور مختلف مقامات پر مختلف اشکال میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ اس کا مثبت اور منفی دونوں پہلو ہو سکتے ہیں، اور اس کا اثر قوموں کی سیاست، معیشت، اور معاشرت پر مختلف انداز میں پڑ سکتا ہے۔

قومی شناخت: نیشنل ازم قوم یا قومیت کی ایک مخصوص شناخت پر زور دیتا ہے، جس میں زبان، ثقافت، روایات، مذہب، اور تاریخ شامل ہو سکتے ہیں۔

خود مختاری کی خواہش: نیشنل ازم کی ایک اہم خصوصیت قوم کی خود مختاری اور آزادی کی خواہش ہے، جو کہ سیاسی اور اقتصادی معاملات میں خود مختاری پر زور دیتا ہے۔

قومی وحدت: نیشنل ازم قوم کے اندر یکجہتی اور اتحاد کو فروغ دیتا ہے، تاکہ مختلف طبقات اور فرقوں کے درمیان اختلافات کو کم کیا جا سکے۔

دفاعی نقطہ نظر: نیشنل ازم میں قوم کی بقا اور دفاع کو اہمیت دی جاتی ہے، جس کے لیے قوم کی عسکری اور سیاسی طاقت کو بڑھانے پر زور دیا جاتا ہے۔

غیر ملکی اثرات کی مخالفت: نیشنل ازم غیر ملکی تسلط یا اثرات کی مخالفت کرتا ہے، اور قومی تشخص کو محفوظ رکھنے کے لیے ان سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔

قومی مفادات کی ترجیح: نیشنل ازم میں قوم کے مفادات کو دیگر اقوام یا عالمی اداروں کے مفادات پر ترجیح دی جاتی ہے۔

قوم کی تاریخی اہمیت: نیشنل ازم کے پیروکار قوم کی تاریخی اہمیت اور کامیابیوں کو اجاگر کرتے ہیں اور انہیں قوم کی شناخت کا اہم حصہ سمجھتے ہیں۔