ہندو مت
ہندومت دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں سے ہے،اس کا آغاز ہندوستان میں آریاووں کی آمد سے پندرہ سو قبل مسیح سے ہوتا ہے، ہندو کا معنی غلام،چور ہے۔ہندووں کی مذہبی کتابیں وید نام سے ہیں :ویدکا معنی جاننا،سوچنا،موجود ہونا اورمقدس علم ہے اور انکی تعداد چار ہے:i۔ رگ وید(یہ وید دس کتب پر مشتمل ہے ہر کتاب میں ایک ہزار اشلوگ اور نظمیں(1028) ہیں یہ وید سب سے اہم ہے )اس کو سب سے قدیم سمجھتے ہیں،ii۔ یجر وید(یہ کتاب نظم ونثر پر مشتمل ہے، منتر، دعائیں اورمذہبی رسوم کا اس میں ذکر ہے )،iii۔ اتھر وید(6 ہزار منترہیں)(یہ ساری کتاب خرافات، جادو، منتراور ٹوٹکوں پر مشتمل ہے)، iv۔ سام وید (اس میں اشعار اور دعائیں ہیں جو اکثر خوشی کے موقع پر پڑھی جاتی ہیں )۔ ان کے زمانہ تالیف میں بہت اختلاف ہے۔کہ کب کونسی کتاب لکھی گئی تھی۔اس کے علاوہ ان کی مشہور مذہبی کتابوں میں”رامائن” اور”مہا بھارت”ہے۔یہ دراصل فقہی کتابیں ہیں ۔
معنی قریب بیٹھنا، اپ :نزدیک، نی: ہم تن گوش،شد: بیٹھ جانا۔اس کا موضوع روح، خدااور فطرت ہے۔ویدوں کے بعد دوسرا درجہ اس کا ہے۔یہ اصل میں فلسفیانہ خطابات ہیں جو گرووں نے اپنے شاگردوں کو بیا ن کئے تھے۔
ہندووں کے ہاں طبقاتی تقسیم چارذاتوں پرمشتمل ہے :i۔ برہمن، ii۔ کھشتری، iii۔ ویش،iv۔ شودر۔
مشہور ہے کہ برہمن”پرماتما”کے منہ سے،کشتری بازووں سے،ویش رانوں سے اور شودر پاوں سے پیدا ہوئے
ہندووں کے ہاں برہمن وید کے لئے،کشتری حکومت کے لئے،ویش کاروبار کے لئے، اور شودر خدمت کے لئے بنے ہیں۔
ویدک دھرم میں اندر(بجلی اور طوفان کا دیوتا) اگنی(آگ) سوریہ (سورج) وایو(ہوا ) مشہور دیوتا ہیں۔
سنسکرت زبان میں آوا گون یا جونی چکر کا نام ہے جس کامعنی گناہوں اور نیکیوں کی بدولت باربارجنم لینا اور مرنا ہے۔ہندو عقیدہ کے مطابق انسانی روح نروان حاصل کرنے کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار بار چکر لگاتی ہے۔اور روح کا بدلنا اپنے اعمال کی بنیاد پر ہے۔کبھی حیوان،نباتات،اور جمادات کے روپ میں بدلتی ہے۔
برہمو سماج : بانی رام ہون رائے ہے جو 1774ء برہمن گھرانے میں پیدا ہوا اس نے15 سال کی عمر میں بت پرستی کے خلاف رسالہ بنگالی زبان میں نکالا۔اور خود مختلف زبانیں:عربی، فارسی، سنسکرت، انگریزی،فرانسیسی،لاطینی،یونانی اور عبرانی زبانیں سیکھیں ، 1828ء میں برہمو سماج کی بنیاد رکھی، 2۔ آریا سماج : اس کا بانی سوامی دیانند سرسوتی (1824-1884)ہے اس نے1875ء کو بنیاد رکھی ۔
دیوالی: چار روزہ تہوار وشنو کے پیروکاراورتاجر مناتے ہیں،چراغاں اور رام مندر کی تاج پوشی کی جاتی ہے،مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں،ii۔ ہولی: بسنت،بہار اور رنگ بکھیرا جاتا ہے،iii۔ راکھی بندھن : حقیقی یا منہ بولی بہن بھائیوں کی کلائی پر سلونو کے دھاگے باندھتی ہیں یہ ساون میں منایا جاتا ہے، iv۔ دسہرہ:اس کا معنی ہے دس روزہ یعنی دس گناہوں کو لے جانے والا۔ یہ جیٹھ میں گنگا میں نہایا جاتا ہے۔
گورونانک،رائے داس اور مہاتما گاندھی وغیرہ ہندووں کے مشہور لیڈر ہیں ۔
جنان مارگ (علم ومعرفت کے طریقے)۔ بھگتی مارگ(عبادت وعقیدت کے طریقہ پر)۔ کرم مارگ (عمل اور قربانی کے طریقہ پر)۔
ہندووں کے مشہور خدا تین ہیں :i۔ برہما،ii۔ وشنو، iii۔ شیو۔ ان کو تریمورتی کہا جاتا ہے۔
تریمورتی سے مراد ہندو عقیدہ ہے، جس میں تین دیوتا :برہما،وشنواورشیو شامل ہیں ، برہما کی حیثیت خالق کی،وشنو کی حیثیت انتظام ِدنیا کو چلانے والے دیوتا کی اور شیو کی حیثیت فنا اور موت کے دیوتا کی ہے۔
عقیدہ تناسخ کوسنسکرت میں”اواگون”یا”جونی چکر” کہتے ہیں ، اس کا مطلب ہے کہ انسان مرنے کے بعد فنا نہیں ہوتا بلکہ گناہوں اور نیکیوں کی وجہ سے بار بار جنم لیتا ہے۔
گیتا یعنی کتاب پڑھنے کے لئے۔گنگا یعنی دریا اشنان کے لئے ۔گاوتری یعنی منتر ورد کے لئے ۔گاوماتا یعنی گائے پرستش کے لئے۔
وشنو”کی بیوی کا نام”لکشمی”ہے اور یہ مال ودولت، خوش بختی کی علامت خیال کی جاتی ہے۔
سکھ مت
سکھ مت کا اصل بانی قبیل داس ہے پھر اس کا شاگرد گرونانک نے اس میں زیادہ شہرت حاصل کی، ولیم میور نے اپنی کتاب میں اس کے بارے لکھا ہے:”The living religion’s of the Indian people” آپ کا خاندان کھشتری تھا۔ باباجی کے والد کا نام “کالو”تھا، والدہ کا نام “ترپتہ”تھا۔ پیشے کے اعتبار سے دکان دار تھے اور ملازمت کے اعتبار سے پٹواری تھے، سات برس کی عمر میں ایک استاد کے سامنے تعلیم کے لئے بیٹھایا گیا،بابا گرونانک نے مروجہ تعلیم کسی مدرسہ، سکول اور کالج سے حاصل نہیں کی، تاہم ایک مسلم عالم دین سید حسن کے سامنے عربی اور فارسی سیکھی۔ پھر مختلف مقامات کے دورے کیے۔
گرو نانک نے اپنے پیروکاروں کیلئے مذہبی نظمیں اور مناجات چھوڑی ہیں سکھ مت کے دوسرے گرو نے”گورمکھی”ایجاد کی ہے۔پانچویں گرو(ارجن نام تھا)نے بنیادی گرنتھ کی جمع تدوین بھی کی اور اس میں ترمیم بھی کی۔اسکو سکھ”آدی”یا اصلی گرنتھ کہتے ہیں۔
سکھ مت میں دو مشہور فرقے پائے جاتے ہیں :1۔نام داری 2۔اقالی سکھ
نامداری:اس فرقے کے بانی کا نام” بھائی رام سنگ” ہے۔
اقالی سکھ:یہ جدید فرقہ ہے اور جنونی قسم کا ہے۔ اعتدال اوررواداری ان کے ہاں موجود نہیں ہے۔
سکھوں کا مرکز امرتسر ہے:امرت:’آب حیات ‘اورسر’ تالاب ‘کو کہتے ہیں۔
سکھ مت کےبانی گورونانک کی پیدائش15 اپریل1469ء کو ضلع شیخو پورہ (پاکستان) کے گاوں تلونڈی میں ہوئی تھی۔
کڑا ۔کچھا۔کرپان۔کیس ۔کنگھا
جین مت
لفظ جین جنا سے مشتق ہے جس کا معنی فاتح اور غالب کے ہیں۔ویسے مذہبی پیشواوں کو جنا بھی کہا جاتا ہے اس کا بانی مہاویر سوامی ہے۔اصل نام وردہمان ہے اس کا تعلق پٹنہ کے رہائشی کھشتری خاندان سے تھا( یہ بپھرے ہوئے ہاتھی کی سونڈ پکڑ کر سوار ہوگیا اس سے مہابیت نام پڑ گیا)مہاویر کو 42سال کی عمر میں نروان حاصل ہوا تھا اور یہ 72سال کی عمر میں جنوبی بہار کے ایک گاوں میں فوت ہوا۔
جین مت ہندو دھرم کے خلاف عوامی رد عمل کے نتیجہ میں معرض وجود میں آنے والا مذہب ہے، ہندو اسے بدعتی تحریک کہتے ہیں،مردم شماری میں جین مت کو ہندو سمجھ کر شمار کیا جاتا ہے۔
جین مت کی مذہبی کتب : ان کی مشہور کتب میں سے اپانکہ،ہیولہ اور امگس وغیرہ ہیں۔
اس تحریک کا اصول یہ تھا کہ ذی روح کو تکلیف نہیں پہنچانی، یہ ہندو مت کی طبقاتی تقسیم کے بھی خلاف تھا۔
اس مذہب کی مشہور تعلیمات میں تین باتیں ہیں جو تری رتنہ کہلاتی ہیں :1۔صحیح عقل، 2۔درست ایمان ، 3۔نیک عمل ۔
جین مت میں ترک دنیا میں مبالغہ پایا جا تا ہے اور یہ رہبانیت کا قائل ہے، اسی طرح عملی زندگی سے فرار اختیار کرنے والا اور برہمن ازم کا باغی مذہب سمجھا جاتا ہے۔
جین مت کے دو فرقے چندر گپت موریا کے دور میں بنے تھے۔ 1۔ شویتا مبر(سفید کپڑے پہنتا ہے) 2۔ ڈگا مبر (برہنہ پھرتا ہے)
میں کسی ذی روح کو نقصان نہ پہنچاوں گا، نہ ہی کسی اورکو نقصان پہنچانے دوں گا، ذی روح کو ہلاک کرنا قابل مذمت ہے، میں شادی نہ کروں گا، راہبانہ زندگی گزاروں گا۔
اعمال کی درستی کی بنیاد ان پانچ باتوں پر ہے:اہنسا ،ستیام،برہمچا ریام اور اپری گراہہ۔
بدھ مت
بدھ کا لغوی معنی عابد،زاہد،عقلمند،معرفت،شعور ہے، یہ سنسکرت زبان کا لفظ ہے،نیپال کی ریاست کے والی جس کا نام شدوھن تھاکہ ہاں ایک بیٹا 567قبل مسیح میں پیدا ہوا جس کا نام سدھارتھ رکھا گیا، بدھ کی والدہ کا نام مہایاتھا ، اس کا خاندان طشتری تھا۔ بدھ کو 35سال کی عمر میں نروان حاصل ہو گیا تھا۔ اس مذہب کے مذہبی اسکالرز بھکشو کہلاتے ہیں اور زرد رنگ کا لباس پہنتے ہیں جبکہ دنیا دار طبقہ اُپاسک کہلاتا ہے۔
ان کی مذہبی کتب میں ویاناپتاکا، ستا پتاکا اوربدھیما پتاکا مشہور ہیں ۔ یہ کتب پالی زبان میں ہیں ۔ اب دنیا کے مشہور ممالک سری لنکا، نیپال، برما، تبت،آسام، کوریا، جاپان، اور چین وغیرہ میں تقریبا پندرہ کروڑ کے قریب تعداد میں بدھ مت آباد ہیں ۔
جین مت کی طرح بدھ مت میں بھی خدا کا کوئی واضح تصور نہیں پایا جاتا۔
اس کی کوئی تحریری کتاب نہیں ہے جس سے یہ پتہ چلے کے اس کے بنیادی عقائد کیاہیں، بدھ مت کی ترویج درحقیقت راجہ اشوک اور راجہ چندر نے کی البتہ کچھ کتبے مختلف علاقوں سے کھدائی کے بعد ملے، جس پر اس کے بنیادی عقائد درج تھے۔
بدھ مت ان چیزوں کی تعلیم دیتے تھے:1۔عقیدے کی سچائی،2۔ارادے کی سچائی، 3۔قول کی سچائی،4۔افعال کی سچائی،5۔کھانے کی سچائی، 6۔توجہ کی سچائی،7۔تصور کی سچائی،8۔ لذات اور خواہشات کے ترک کی سچائی۔
بدھ مت ایک دوسرے کے حقوق وفرائض کا بھی قائل تھا مثلاً: والدین کے حقوق وفرائض، اولاد کے حقوق وفرائض،استادکے حقوق وفرائض،شاگرد کے حقوق وفرائض، شوہر اور بیوی کے حقوق وفرائض،آقا اور غلام کے حقوق وفرائض وغیرہ۔
مہایان : یعنی بڑا پہیہ یا بڑی گاڑی اس میں بہت سے لوگ بیٹھ کر نروان کا سفر کر سکتے ہیں۔
ہنایان : یعنی چھوٹا پہیہ جس میں چند آدمی سوار ہو کر نروان کا سفر کر سکتے ہیں۔
گوتم بدھ کی لاش کو جلانے کے بعد اس کی راکھ کو مختلف مقامات پر دفن کر دیا گیا اور ان جگہوں پر بڑے بڑے گنبد بنا دئیے گئے جنہیں اسٹوپا کہتے ہیں۔
تری پتاکا (تری پتکا)سے مراد بدھ مت کی تین مقدس کتابیں ہیں اور یہ بدھ مت کا مذہبی ادب ہیں انہیں تین ٹوکریاں بھی کہتے ہیں :i۔ ویانا پتاکا (اس کا مصنف اپالی ہے )، ii۔ ستا پتاکا ( مصنف انند ہے )، iii۔بھد ھیما پتاکا (اس کا مصنف کسیاپا ہے)
مہاراجہ اشوک نے بدھ مت کو اندرون وبیرون ملک پھیلانے کے لئے مبلغین مقرر کئے،عبادت گاہیں بنوائیں اورغیر ممالک میں سفیر بھیجے اس لئے مہاراجہ اشوک کو بدھ ثانی بھی کہا جاتا ہے۔
کنفیوشس ازم
کنفیوشس ازم چین کا سب سے بڑا مذہب ہے۔یہ اپنے آپ کو کائنات پرست کہتے ہیں۔کائنات بظاہر قدرت کی پوجا کا نام ہے۔کنفیوشس چھٹی صدی قبل مسیح میں دار السطنت”لیولیو”موجودہ صوبہ شہاگ کے قصبہ”کوفو”میں شولان کے گھر پیدا ہوا۔تین برس میں والدین کا انتقال ہوگیا۔انیس برس کی عمر میں شادی کردی۔شادی کے چار سال بعدکنفیوشس اپنی بیوی کو طلاق دینے پرمجبور ہوگئے اور مجرد زندگی گزارنا شروع کردی۔بعد ازاں چین کے محکمہ مال میں ملازم ہوئے۔
کنفیوشس دین ودنیا اور مذہب و سیاست کو الگ الگ نہیں سمجھتا تھا۔ کنفیوشس انسان کے ظاہر کی بجائے باطن کا زیادہ قائل ہے۔اس کے مطابق اصل انسان وہ ہے جو انسان کے اندر چھپا ہوا ہے۔اس کو ایسی کھری کھری باتوں پر اکثراپنی جان کا خطرہ رہتا تھا۔کنفیوشس کے نظریات یہ ہیں:1۔خدا پرستی، 2۔تخلیق کائنات، 3۔حیات بعد از موت،4۔مردہ پرستی۔
کنفیوشس نے اجتناب کرنے کا حکم دیا:1۔غصے سے اجتناب،2۔تکبر سے اجتناب،3۔ظلم سے اجتناب،4۔گروہ بندی سے اجتناب
کنفیوشس کے رابطے:اس کے رابطے ان لوگوں کے ساتھ تھے:1۔حکمران اور رعایا کا رابطہ،2۔باپ اور بیٹے کا رابطہ، 3۔بڑے اور چھوٹے بھائی کا رابطے، 4۔شوہر اوربیوی کا رابطہ دوست کا دوست سے رابطہ۔
مقدس کتب:1۔تعلیم آدمی،2۔شیوچنگ،3۔شی چنگ، 4۔لیچی، 5۔پی چنگ،6۔علم عظیم،7۔انیلکٹس،8۔چونگ چونگ، 9۔چون چن،10۔نظریہ اعتدال۔
الف۔بادشاہ اپنے عمل سے عوام کے لئے مثالی وقابل تقلید نمونہ پیش کرے ،ب۔ حکمرانوں کو عوام کی فلاح و بہبودکی طرف توجہ دے کر ان کی محبت اور اعتماد حاصل کرنا چاہئے،ج۔حکمرانوں اور عوام کو اپنے اپنے فرائض خوش اسلوبی اور خلوص سے سر انجام دینے چاہییں، د۔حکمرانوں کے ساتھ ایسا سلوک روا نہیں رکھنا چاہیے جو نفرت پیدا کرنے کا باعث ہو،ح۔حکومتی عہدوں پر امانتدار و دیانتدار افراد کا تعین ہونا چاہئے۔
زرتشت ازم
زرتشت قدیم ایرانی لفظ زرتشترا سے نکلا ہے جس کا معنی بڑا پادری یا روحانی پیشوا کے ہیں۔زرتشت کو اہل ایران مجوسی کہتے ہیں۔اس کی تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے۔ مگر اس کے حالات زندگی اس کی اپنی کتاب “اوستا”کے مطابق اس کا سن پیدائش660ق م اور وفات583ق م ہے۔ زرتشت کے باپ کا نام شاسپ تھا،یہ ایران کے صوبہ آذربائیجان میں پیدا ہوا تھا۔ بلوغت کے بعد اس کے والدین نے ایک بہت بڑے معلم جس کا نام”بزاکرزا”تھا کے سامنے تعلیم کے لئے بٹھا دیا۔ زرتشت کے نزدیک تخلیق کائنات کے چھ ادوار ہیں ، اب زرتشت مذہب مجوسی مذہب میں مدغم ہو چکا ہے۔
اس مذہب کی مشہور کتاب “اوستا”ہے ،اس کے علاوہ”گاتھا”بھی ہے جس کے بارے زرتشت ازم کے پیرو کار یہ سمجھتے ہیں کہ یہ زرتشت کا اپنا کلام ہے۔زرتشت مذہب کی مذہبی کتاب اوستا 72یسناوں پر مشتمل ہیں ، ان میں سے 17یسنائیں گاتھا کہلاتی ہیں ۔یہ گاتھیں تعداد میں کل پانچ ہیں
زرتشت ان چیزوں کی تعلیمات کا درس دیتا تھا:1۔تصور الہ،2۔صفات الہ، 3۔تخلیق کائنات، 4۔تصور ملائکہ،5۔تصور رسالت، 6۔تصور جنت ودوزخ اور حیات بعد الموت۔
زرتشت ہر حال میں پاکیزگی کا قائل ہے۔خواہ انسان کے افکار ہوں یا خیالات، اعمال ہوں یا معاملات ہر حال میں انسان کو پاکیزہ رہنا چاہئے اس کا کہنا ہے:”انسان کو ہر کام میں صفائی کا خیال رکھنا چاہئے صفائی سے مراد نہ صرف جسم ولباس کی صفائی ہے بلکہ خیالات کی صفائی، اعمال، مال اور گردونواح کی صفائی شامل ہے”
خدائے خیر (آھورمزدا، یزدان)اور خدائے شر(اہرمن )ہیں ۔
ان کی مذہبی کتب یہ ہیں:1۔اوستا،2۔گاتھا، 3۔دساتیر۔
زرتشتیوں کا نظریہ ہے کہ مردے ناپاک ہوتے ہیں اس لئے وہ مرنے کے بعد اس کو اونچی جگہ رکھ دیتے ہیں تا کہ گوشت خور پرندے کھا جائیں اور زمین گندگی سے محفوظ رہے۔ وہ اپنے مردے نہ تو دفن کرتے ہیں ، نہ آگ میں جلاتے ہیں،نہ دریا میں بہاتے ہیں بلکہ کسی اونچی جگہ پر رکھ دیتے ہیں جہاں اسے پرندے نو چ نوچ کر کھا جاتے ہیں ۔ اسے دخمہ یا مینار خاموشی کہتے ہیں۔
پارسی مذہب کی ایک رسم ہے جس میں پروہت لاش کے ساتھ کتے کو لاتے ہیں تا کہ ہوائی چیز کتے کے ڈر سے لاش کو خراب نہ کرے۔