sample phd admission

Sample Paper of Ph.D. Islamic Studies Admission

Time: 02 Hrs. Total Marks :100. Passing Marks:70

University of the Punjab, Lahore. [Year-2020]

اس موضوع پر سلف مفسرین  پانچ سو یا اس سے بھی زیادہ آیات کو منسوخ مانتے ہیں جبکہ متاخرین میں بعض صرف بیس آیتوں کو  منسوخ  مانتے ہیں۔ مگر شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ  کی تحقیق ہے  کہ قرآن کریم کی صرف پانچ آیات منسوخ ہیں  ۔ لیکن  بعض محققین یہاں تک لکھتے ہیں کہ ان پانچ آیات کی توجیہ پر نظر کیا جائے اور نسخ کا جو معنی اصولیین نے بیان کیا ہے اگر اس پر نظر کی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے قرآن کی کوئی آیات  منسوخ نہیں کیونکہ  کسی حکم کی مدت کے اختتام یا علت کے دور ہو جانے کی وجہ سے قرآن کا کوئی حکم معطل تو سمجھا جا سکتا ہے بالکل منسوخ نہیں مانا جا سکتا ۔قرآن پاک قیامت تک کے لیے نافذ العمل ہے لہذا جب بھی حالات کا تقاضا ہوگا ، اصل حکم پھر نافذ ہو جائے گا ۔متقدمین اور متاخرین مفسرین کے درمیان منسوخ آیات کی تعداد میں بظاہر  اتنے بڑے فرق ہونے کی اصل وجہ ناسخ ومنسوخ کی اصطلاح ومراد میں فرق ہونا  ہے  ورنہ حقیقت میں کوئی اختلاف نہیں ۔اگر ان اختلافات کو پوری جزئیات وتوجیہات کے ساتھ بیان کیا جائے تو ان کے درمیان در حقیقت کوئی فرق نظر نہیں آئے گا ۔ناسخ ومنسوخ کی پہچان ایک مشکل ترین امر ہے جس کے اندر کافی طویل بحثیں اور متعدد اختلافات ہیں۔ اس کی بڑی وجہ متقدمین اور متاخرین مفسرین میں ناسخ ومنسوخ کی اصطلاح ومراد کا اختلاف ہے ۔صحابہ کرام اور تابعین عظام کے کلام کا تتبع کرنے سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ  حضرات جو متقدمین مفسرین کہلاتے ہیں وہ ناسخ ومنسوخ کو اس کے  لغوی معنوں میں لیتے ہیں اور وہ لغوی معنی ہے”کسی چیز کا دوسری چیز کے ساتھ تبدیل کردینا”۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ ان کے نزدیک نسخ کا معنی بہت وسیع ہوتا تھا ، مثلاً : کسی آیت کے اوصاف میں سے بعض اوصاف کو دوسری آیت کے ذریعے اٹھا دینا  یا ازالہ کرنا  وغیرہ ان کے نزدیک نسخ کہلاتا ہے  اور اس طرح کے ازالہ کی چند صورتیں تھیں :

·         جب کسی حکم کے عمل کی انتہائی  مدت پوری ہوتی تو اس مدت کے بعد وہ حکم خود بخود ختم ہو جاتا  اس کے لیے بھی نسخ کی اصطلاح استعمال کرتے۔ جب کلام  اپنے  متبادر معانی (وہ ظاہری معانی جن کی طرف ذہن فورا منتقل ہو جائے ) سے غیر متبادر معانی کی طرف پھرتا تو وہ اس عمل کو بھی  نسخ کی اصطلاح  سے تعبیر کرتے ۔

·         جب کسی عام حکم میں تخصیص کو بیان کرتے تو اس کے لیے بھی نسخ کی اصطلاح استعمال کرتے ۔

·         اسی طرح زمانہ جاہلیت کی کسی عادت یا کسی سابقہ شریعت کے حکم کا ازالہ ہوتا تو وہ اس ازالہ کو بھی نسخ سے تعبیر کرتے ۔

اسی طرح وہ دیگر مواقع پر بھی نسخ کی اصطلاح استعمال کرتے اور یہی وجہ ہے ان متقدمین حضرات رضی اللہ عنہم کے نزدیک منسوخ آیات کی تعداد پانچ سو یا اس  سے تجاوز کر جاتی ہے ۔ جبکہ متاخرین کا نظریہ ہے کہ کسی حکم کی مدت ختم ہو جانے یا اس کی علت دور ہو جانے سے قرآن کا کوئی حکم معطل تو سمجھا  جاسکتا ہے لیکن اس کو منسوخ قرار نہیں دے سکتے ۔  متاخرین اصولیین کی اصطلاح کا اعتبار کرتے ہوئے نسخ کا جو معنی لیتے ہیں وہ یہ ہے کہ پہلے حکم کو دوسرے حکم کے ذریعے کلی طور پر اٹھا دیا جائے حتی کہ پہلے حکم پر عمل کرنا ناجائز ہو جائے ۔ اس سلسلے میں متاخرین میں  امام جلال الدین  سیوطیؒ نے کافی  تحقیق کی اور پھر اپنی کتاب “الاتقان فی علوم القرآن” کے اندر نسخ پر طویل بحث کرتے ہوئے  متقدمین کے  پانچ سو منسوخ آیات کے بر خلاف اور ابن العربی کی تحقیقات کے مطابق صرف بیس آیات منسوخ قرار دیتے ہیں  مگر شاہ ولی اللہ دہلوی نے الفوز الکبیر کے اندر جو  تحقیق پیش کی ہے اور امام سیو طی کی پیش کردہ   بیس منسوخ آیتوں کا تجزیہ کیا ہے اور مثالیں دے کر سمجھایا ہے کہ ان بیس میں سے صرف پانچ آیتیں منسوخ ہیں ، حالانکہ دوسرے محققین کا ماننا ہے کہ   توجیہات پر مزید غور کرنے پر اور انہیں  سمجھ لینے کے بعد وہ بھی نسخ سے خارج ہو جاتی ہیں  یعنی وہ آیتیں نسخ کے معیار پر پوری نہیں اترتیں ۔مطلب یہ ہے کہ بعض متاخرین کی بیان کردہ توجیہات کے مطابق پورا کا پورا قرآن محکم ہے ، اس کی کوئی آیت منسوخ نہیں ۔پھر اس میں زمانے کا لحاظ بھی ضروری ہے ، مثلا اگر آج کے دور میں بعض احکام پر عمل نہیں ہو سکتا تو عہد اولی اورعہد وسطی میں تو ان پر عمل ہوتا رہا ہے ، ہو سکتا ہے کہ آگے چل کر پھر ایسے حالات پیدا ہو جائیں جن میں ان احکامات پر عمل کرنا ممکن ہو جائے ۔قرآن کریم ایک معجزہ ہے جو قیامت تک کے لیے لائحہ عمل ہے اگر پہلے کسی حکم پر عمل نہیں تھا تو بعد میں ہو سکتا ہے ۔  واللہ اعلم بالصواب ۔

امام قرطبی: الجامع لاحکام القرآن۔

شیخ طنطاوی: التفسیر الوسیط للقرآن الکریم۔

ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی: تفسیر دروس القرآن۔

ڈاکٹر اسرار احمد: بیان القرآن۔

الفوز الکبیر پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ ان پانچ ابواب سے کتاب کی اہمیت وجامعیت کا اندازہ بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے۔ وہ پانچ ابواب مع اردو ترجمہ بالترتیب درج ذیل ہیں:

الباب الأول: في بیان العلوم الخمسة التي يدل عليها القرآن العظیم نصاً، وكأنّ نزول القرآن بالإصالة كان لهذا الغرض (ترجمہ: باب اوّل: ان پانچ علوم کے بیان میں ہے، قرآن عظیم جن پر باعتبار نص کے دلالت کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اصلا قرآن عظیم کا نزول اسی مقصد کے ہوا ہے)

الباب الثاني: في بیان وجوہ الخفاء في معاني نظم القرآن بالنسبة إلى أهل هذا العصر، وإزالة ذلك الخفاء بأوضح بيان (ترجمہ: باب دوم: اپنے زمانے کے لوگوں کے اعتبار سے، ان دشواری کے وجوہات کے بیان میں ہے جو نظم قرآن کے معانی میں پیش آتی ہے اور نہایت وضاحت کے ساتھ اس دشواری کو حل کرنے کے بیان میں ہے)

الباب الثالث: في بيان لطائف نظم القرآن، وشرح أسلوبہ البدیع، بقدر الطاقة والإمکان (ترجمہ: باب سوم: (انسانی) طاقت اور امکان کے بقدر نظم قرآن کے لطائف اور اس کے انوکھے اسلوب کی وضاحت کے بیان میں ہے)

الباب الرابع: في بیان مناهج التفسير، وتوضیح الاختلاف الواقع في تفاسير الصحابة والتابعين۔ (ترجمہ: باب چہارم: تفسیر کے طریقوں اور صحابہ وتابعین کی تفاسیر میں واقع ہونے والے اختلاف کی وضاحت کے بیان میں ہے)

الباب الخامس: في ذكر جملة صالحة من شرح غریب القرآن، وأسباب النزول التي یجب حفظها علی المفسر، ويمتنع ویحرم الخوض في كتاب اللہ بدونها (ترجمہ: باب پنجم: قرآن کریم کے غریب (دشوار فہم الفاظ) کی تشریح کی وافر مقدار اور ان اسباب نزول کے بیان میں ہے جن کو مفسر کے لیے یاد کرنا ضروری ہے۔ ان کےبغیر قرآن کریم میں غور وخوض کرنا ممنوع اور حرام ہے)۔

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ   مفسر قرآن کے لئے مندرجہ ذیل شرائط ضروری قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ مفسر قرآن کم از کم ان علوم پر ضروری دسترس رکھتا ہو، علم اللغۃ، علم نحو، علم صرف، علم اشتقاق، علم معانی، علم بیان، علم بدیع، علم قرأت، علم اصول دین، علم اصول فقہ، علم اسباب نزول، علم قصص القرآن، علم الحدیث، علم ناسخ و منسوخ، علم محاورات عرب، علم التاریخ اور علم اللدنی ۔ ‘‘

 

شریعت اسلامیہ کی ایک اہم اصطلاح اجتہاد ہے۔ اجتہاد کا لفظ ‘جہد’ سے نکلا ہے، جس کے معنی ہیں سخت محنت و مشقت کرنا۔ مخصوص شرائط کے ساتھ فقہی منابع میں سے عملی احکام اور وظائف کا استنباط کرنا اجتہاد کہلاتا ہے۔ انسان میں ایسی صلاحیت کا پایا جانا جس کے ذریعے وہ اسلامی احکام کو اس کے مخصوص منابع اور مآخذ سے اخذ کرسکے اس صلاحیت اور قابلیت کو اجتہاد کہا جا تا ہے۔ جس شخص میں یہ صلاحیت پائی جائے اسے مجتہد کہا جاتا ہے۔اکثرعلماء کے نزدیک  فقہی منابع، کتاب، سنت، اجماع  اور عقل ہے۔ قیاس، استحسان وغیرہ کو  اہل سنت نے اجتہاد میں داخل کر رکھا ہے جبکہ اہل تشیع کے یہاں قیاس، استحسان اور تفسیر بالرائے کی گنجائش نہیں ہے۔

 طریقۃ الفقہاء: الأصول از امام سرخسی و تاسیس النظر از امام دبوسی

 طریقۃ المتکلمین: المحصول از امام رازی،  الاحکام فی اصول الاحکام از امام آمدی

فائدہ: طریقۃ الجمع بین الفقہاء و المتکلمین جس میں متکلمین و فقہاء کے طریق کو جمع کیا ہو ، توضیح از امام صدر الشریعہ ، جمع الجوامع از امام سبکی۔

باعتبارِ اداء فی الوقت واجبات کی دو قسمیں ہیں:

(۱) مطلق:بعض واجبات کی ادائیگی وقت وجوب کے ساتھ مقید نہیں ہے یعنی شارع کی طرف سے وجوبِ اداء کے بعد ادائے واجب کسی وقت کے ساتھ اس طرح خاص نہیں کیاگیا ہے کہ اس وقت کے فوت ہونے سے مامور بہ کی ادائیگی قضاء کہلائے بلکہ موت سے قبل جب بھی مامور بہ کو انجام دیاجائے وہ ادا کہلائے گا قضاء نہیں۔ س کی مثال زکوۃ ،عشر، صدقہ فطر، حج وغیرہ ایسے افعال ہیں کہ ان کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہے بلکہ زندگی میں جب بھی ادا کریں گے تو ادا ہی کہلائیں گے قضاء نہیں۔

 (۲) مقید: بعض واجبات جوکہ غیرمعقولہ ہیں شارع نے اس کی اداء کو وجوبِ اداء کے ساتھ وقت محدود میں (جس کی ابتداء وانتہاء متعین ہے) مقید کیاہے یعنی وقت مخصوص میں ہی اس کی ادائیگی اداء کہلائے گی وقت گذر جانے کے بعد مامور بہ کی ادائیگی قضاء کہلاتی ہے ان کو واجباتِ موقتہ کہتے ہیں۔ س کی مثال پانچ وقت کی نمازیں اور رمضان المبارک کے روزے ہیں کہ ان افعال کیلئے ایک وقت مقرر ہے اگر اسی وقت میں ادائیگی نہیں کریں گے تو پھر یہ قضاء کہلائیں گے۔

حدیث مسلسل وہ حدیث ہے جس کی سند کے تمام راوی کسی ایک وصف یا خاص لفظ یا کسی خاص فعل پر متفق ہو گئے ہوں۔اس عنوان کی اہم کتب میں سیوطی کی المسلسلات الکبری (اس میں پچاسی مسلسل احادیث ہیں) اور محمد عبد الباقی الایوبی کی المناہل السلسلہ فی الاحادیث المسلسلہ (اس میں 212 احادیث کو درج کیا گیا ہے) ہیں۔

القاضي أبو محمد الرامہرمزيّ، المحدث الفاصل

امام حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ ۔ معرفۃ علوم الحدیث

تحفۃ الاحوذی ازعبد الرحمن مبارکپوری۔

عون المعبود ازشمس الحق عظیم آبادی۔

3۔ التعلیقات السلفیہ از مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی

انجاز الحاجہ از مولانا محمد علی جانباز

 منۃ المنعم از صفی الرحمن مبارکپوری

فتح الملھم از شبیر احمد عثمانی

 السیاسۃ الشرعیۃ از ابن تیمیہ۔

 الاحکام السلطانیہ از ماوردی۔

اسلام کا معاشرتی نظام خیر واصلاح ، طہارت وتقدس، ہمدردی وخیرخواہی اور اعتدال وتوازن پر قائم ہے۔ اس نظام میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی بہبود کا پورا انتطام موجود ہے۔ اسلام کے معاشرتی نظام پر بہترین کتاب “اسلام کا معاشرتی نظام از ڈاکٹر خالد علویؒ” ہے۔

ارسطو نے علم اخلاق کی تعریف میں لکھا ہے: “جس علم میں انسانی کردار پر اس حیثیت سے بحث کی جائے کہ وہ صواب وخیرہیں یا خطا و شراور اس طرح بحث کی جائے کہ یہ تمام احکامِ صواب وخطااور خیر و شر کسی مرتب نظام کی شکل میں آجائیں تو علم کو علمِ اخلاق کہتے ہیں۔” نیز ارسطو ذاتی اخلاق کو انصاف کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ انصاف یہی ہے کہ ریاست کا ہر فرد اپنے فرائض منصبی احسن طریق سے ادا کرتا رہے اور قانون شکنی یا انصاف کشی کی نوبت ہی نہ آئے۔

تھافۃ التھافۃ از علامہ ابن رشدؒ

حقیقۃ الروح اور مقاصد الفلاسفہ از امام غزالیؒ۔

جب عمرو بن امیہ ضمریؓ نے نبیؐ  کا خط نجاشی کے حوالے کیا تو نجاشی نے اسے لے کر آنکھ پر رکھا، اور تخت سے زمین پر اتر آیا اور جعفر بن ابی طالبؓ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور نبیؐ کی طرف اس بارے میں خط لکھا جو یہ ہے:

“بسم اللہ الرحمٰن الرحیم”محمد رسول اللہ کی خدمت میں نجاشی اصحمہ کی طرف سے”اے اللہ کے نبی آپؐ پر اللہ کی طرف سے سلام اور اس کی رحمت اور برکت ہو۔ وہ اللہ جس کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اما بعد:اے اللہ کے رسولؐ مجھے آپ کا گرامی نامہ ملا، جس میں آپؐ نے عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ ذکر کیا ہے۔ خدائے آسمان و زمین کی قسم آپؐ نے جو کچھ ذکر فرمایا ہے سیدنا عیسیٰ اس سے ایک تنکا بڑھ کر نہ تھے۔ وہ ویسے ہی ہیں جیسے آپؐ نے ذکر فرمایا ہے۔ پھر آپؐ نے جو کچھ ہمارے پاس بھیجا ہے ہم نے اسے جانا اور آپ کے چچیرے بھائی اور آپؐ کے صحابہؓ کی مہمان نوازی کی اور میں شہادت دیتا ہوں کہ آپؐ اللہ کے سچے اور پکے رسول ہیں اور میں نے آپؐ سے بیعت کی۔ اور آپؐ کے چچیرے بھائی سے بیعت کی اور ان کے ہاتھ پر اللہ رب العالمین کے لیے اسلام قبول کیا۔

حضرت صالح علیہ السلام

ڈاکٹر احمد زیول۔ مصر (کیمیا)

 ڈاکٹر عبد السلام۔ پاکستان (فزکس)

Wilderness Society Australia, ‘The Kimberley’, The Wilderness Society, Hobart, TAS, Author, 2018, p.6, http://www.wilderness.org.au/work/the-kimberley, (accessed 6 September 2018).

تالمود: یہودیت

بھگوت گیتا: ہندوازم

تری پتاکا:بدھ ازم

گروگرنتھ: سکھ ازم

سائنسی ریسرچ کے دائرہ کار میں مفروضہ ایسے خیال کو کہا جاتا ہے جس کی حقیقت کو تجربہ کی مدد سے جانچا جا سکے، دوسری جانب اس کے غلط ہونے کے بارے میں بھی کوئی گذشتہ حتمی تحقیق نا موجود ہو۔  تجربے کے بعد مفروضے کا اقرار یا انکار کیا جاتا ہے جس سے کسی نظریے کو وجود ملتا ہے اور اس عمل کو ریسرچ کا نام دیا جاتا ہے۔

” نماز” فارسی زبان کا لفظ ہے، اور بطورِ اسم مستعمل ہے، اس کے معنی بندگی، پرستش، عاجزی اور انکساری کے ہیں۔ اصطلاح میں نماز اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی کرنے کا ایک خاص طریقہ ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں دیا اور رسول اللہ  ﷺ نے احادیثِ مبارکہ میں اپنی امت کو سکھایا ہے۔

Financial Action Task Force (on Money Laundering) (FATF)

اسلام میں عقلیت پسندی وہ سوچ یا نظریہ ہے جس کی بنیاد کسی توجیہ یا منطق پر ہو؛ عقلیت پسندی کسی خاص عقیدے یا عمل کے لیے تسبیب و توجیہ کا جامع اور منطقی وجہ ہے؛ عقلیت پسندی عقل سے ماخوذ ہے ۔اسلام میں تمام معمولات عقلیت پسندی اور منطق پر مبنی ہیں جنہیں دوسروں کے جذبات کو نظر میں رکھ کر انجام دیا جاتا ہے۔ مغرب میں عقلیت پسندی کو مذہبی استحکام میں بڑے پیمانے پر سماجی اور ثقافتی تحریک کے تناظر میں سمجھا جاتا ہے، لہٰذا عقلیت پسندی کو مغرب میں مذہبی احکام و ہدایات کا متبادل مانا جاتا ہے۔ عقلیت پسندی کا جنم اس لیے ہوا کہ چرچ نے معاشرے پر مکمل تسلط قائم کر لیا تھا اور انسانی سوچ اور عادات اطوار کو خدا کے نام پر مذہبی علماء کی مطلق العنان اتھارٹی کی زنجیروں میں جکڑ دیا تھا۔

علامہ ابن خلدون ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، ڈاکٹر یوسف القرضاوی، شاہ ولی اللہ ، مفتی تقی عثمانی۔

سرمایہ داری (Capitalism) ایک معاشی نظام ہے جو پیداوار کے ذرائع کی نجی ملکیت کے ساتھ  ساتھ مارکیٹ آزادی کے اصول پر بھی مبنی ہے ، جس کا مقصد سرمایہ جمع کرنا ہے۔ یہ سوشلزم  نظام کا متضاد ہے۔، اس کی بنیادی خصوصیات یہ ہیں: نجی ملکیت، آزادانہ معیشت، حصول منافع، مقابلہ وغیرہ ۔

مابعد جدیدیت کی اصطلاح احاطہ کرتی ہے، مختلف بصیرتوں اور ذہنی رویوں کا، جن سب کی تہہ میں بنیادی بات تخلیق کی آزادی اور معنی پر بٹھائے ہوئے پہرے یا اندرونی اور بیرونی دی ہوئی لیک یا ہدایت ناموں کو رد کرنا ہے۔ یہ نئے ذہنی رویے، نئی ثقافتی اور تاریخی صورت حال سے پیدا ہوئے ہیں اور نئے فلسفیانہ قضایا پر بھی مبنی ہیں، گویا مابعد جدیدیت ایک نئی صورت حال بھی ہے، یعنی جدیدیت کے بعد کے دور کو مابعد جدیدیت کہا جاتا ہے۔ لیکن اس میں جدیدیت سے انحراف بھی شامل ہے جو ادبی بھی ہے اور آئیڈیولوجیکل بھی۔

نیل الاوطار: امام شوکانی

الوجیز فی اصول الفقہ: ڈاکٹر عبد الکریم زیدان

الکامل فی التاریخ: ابن الاثیر الجزری             

ازالۃ الخفاء: شاہ ولی اللہ محدث دہلوی

 A Road to Mecca – The Journey of Muhammad Asad: علامہ محمد اسد

معارف الحدیث: مولانا محمد منظور نعمانی

1۔سید حسین نصر: زوال، انحراف، نشاۃ ثانیہ اور جدیدیت پرست

2۔ ڈاکٹر مصطفی اعظمی : دراسات فی الحدیث النبوی وتاریخ تدوینہ، کتاب النبی ﷺ

3۔ ابن الاثیر: الکامل فی التاریخ

4۔ آل تیمیہ :المسودہ۔

5۔ نجات اللہ صدیقی : مقاصد شریعت، معاصر اسلامی فکر، شرکت ومضاربت کے شرعی اصول

6۔ابو یوسف:کتاب لخراج