تصوف کا لفظ اس طریقۂ کار یا اسلوبِ عمل کے لیے اختیار کیا جاتا ہے جس پر کوئی صوفی (جمع: صوفیا) عمل پیرا ہو۔ اسلام سے قربت رکھنے والے صوفی، لفظ تصوف کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ؛ تصوف کو قرآنی اصطلاح میں تزکیۂ نفس اور حدیث کی اصطلاح میں احسان کہتے ہیں۔ تصوف کی اس مذکوہ بالا تعریف بیان کرنے والے افراد تصوف کو قرآن و سنت کے عین مطابق قرار دیتے ہیں؛ اور ابتدائی ایام میں متعدد فقہی علمائے کرام بھی اسی تصوف کی جانب مراد لیتے تھے مگر بعد میں تصوف میں ایسے افکار ظاہر ہونا شروع ہوئے جن پر شریعت و فقہ پر قائم علما نے نہ صرف یہ کہ ناپسندیدگی کا اظہار کیا بلکہ ان کو رد بھی کیا۔اللہ کو صرف دین اسلام ہی پسند ہے اور دین اسلام وہی ہے جو اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں پورا کر دیا اور اس کے بعد کسی کو ترمیم یا تجدید کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔مختصر یہ کہ وہ مسلم علماء جنہوں نے اپنی توانائیاں انسانی جسم کے لیے معیاری خطوطِ راہنمائی کو سمجھنے پر مرکوز کیں وہ فقیہ کہلائے اور وہ جنھوں نے اس بات پر زور دیا کہ سب سے اہم مہم، درست فہم تک رسائی کے لیے عقل کی تربیت ہے وہ پھر تین مکاتیب میں تقسیم ہو گئے ۔ ماہرین الٰہیات، فلاسفہ اور صوفیا۔ یہاں ہمارے پاس اس انسانی وجود سے متعلق تیسرا ساحہ رہ جاتا ہے، (یعنی) روح؛ متعدد مسلمان، جنھوں نے اپنی زیادہ تر کوششیں انسانی شخصیت کی (ان) روحانی ابعاد کی پرورش کے لیے مختص کر دیں وہ صوفی کے نام سے جانے گئے ۔
لفظ، تصوف تو اصل میں خود اس پر عمل کرنے والے (یعنی صوفی) کے نام سے مشتق ہے، گویا صوفی کا لفظ تصوف سے قدیم ہے۔رہی بات تصوف کی تعریف کی، تو مختلف نقطہ ہائے نظر رکھنے والے افراد کی جانب سے تصوف کی مختلف تعریفیں بیان کی جاتی ہیں۔ سیدھے سادھے الفاظ میں تو تصوف کی تعریف یوں بیان کرسکتے ہیں کہ تصوف اس طریقۂ کار کو کہا جاتا ہے جس پر صوفی عمل پیرا ہوتے ہیں۔ جبکہ خود صوفیا، تصوف کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں کہ؛ تصوف، اسلام کی ایک ایسی شاخ ہے جس میں روحانی نشو و نما پر توجہ دی جاتی ہے۔صوفیا، تصوف کی متعدد جہتوں میں؛ اللہ کی ذات کا شعور حاصل کرنا، روحانی کیفیات اور ذکر (رسماً و جسماً) اور شریعت بیان کرتے ہیں۔دیوبند مکتب فکر جن پر وھابی ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے کے ایک عالم اور اشرف علی تھانوی صاحب کے خلیفہ کہلائے جانے والے محمد مسیح اللہ خان، تصوف کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں کہ؛ اعمالِ باطنی سے متعلق شریعت کا شعبہ تصوف اور سلوک کہلاتا ہے اور اعمالِ ظاہری سے متعلق شریعت کا شعبہ فقہ کہلاتا ہے۔ایک اور دیوبندی عالم قاری محمد طیب کے الفاظ میں؛ مذہبی طور پر علمائے دیوبند مسلم ہیں، تفرقاتی طور پر یہ اہلسنت والجماعت سے تعلق رکھتے ہیں، بطور مقلد یہ حنفی ہیں، طریقت میں صوفی ہیں، مدرسی طور پر یہ ماتریدی اور سلوک میں چشتی ہیں۔برصغیر میں عام طور پر بریلوی مکتب فکر کو تصوف یا اہلسنت سے جوڑا جاتا ہے جو بریلی(شہر) سے تعلق رکھنے والے عالم دین احمد رضا خان بریلوی کو مجدد و امام کہتے ہیں،جنہیں قادریہ سمیت تصوف کے تیرہ دیگر سلاسل کی جانب سے خلافت حاصل تھی۔یہاں ایک دلچسپ اور قابلِ غور بات یہ ہے تصوف پر عمل پیرا دونوں (بریلوی اور دیوبندی) امام ابو حنیفہ کے مقلد ہیں اور تصوف میں بلند درجے پر تسلیم کیے جانے والے ایک صوفی جلال الدین رومی نے خود اس بات کا تذکرہ کیا کہ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کا تصوف سے کوئی تعلق نہیں۔تصوف سے نالاں علمائے اسلام اور سلفی حضرات کی تصوف کی تعریف دیکھی جائے تو ان کے مطابق؛ تصوف، محمد کے بعد اسلام میں پیدا ہونے والی ایک بدعت ہے اور یہ کہ تصوف، قرآن و سنت کے مطابق نہیں ہے۔ لیکن ان میں ایسے علما بھی نظر آتے ہیں جو چند صوفیا (جیسے امام غزالی) کو تکفیر صوفیت کے دوران مُستثنٰی رکھتے ہیں۔
اہل تشیع کے محقق علما اور قدیم متکلمین اور محدثین صوفیت کو کفر اور دشمنی اہل بیت سے تعبیر کرتے ہیں تاہم بعض علما عرفان کے نام پر صوفیت کے قائل ہیں، ان کے نزدیک تصوف، عملی معرفت (gnosis) کا نام ہے اور عرفان سے مراد ایسے علوم کی لی جاتی ہے کہ جو حواس اور تجربات سے نہیں بلکہ باطنی کشف سے حاصل ہو۔فی الحقیقت یہ esoteric اور exoteric والا فلسفہ ہی ہے جس کے لیے ایرانی علاقوں میں عرفانِ نظری (theoretical gnosis) کی اصطلاح بھی مروج ملتی ہے اور شیعہ اور سنی تصوف میں مشترکہ خصوصیات پائی جاتی ہیں اور ان کو مدغم کرنے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے۔
ابو ھاشم وفات؛ 736ء
رابعہ بصری 717ء تا 801ء
بایزید بسطامی 804ء تا 874ء
جنید بغدادی 830ء تا 910ء
منصور بن حلاج 858ء تا 922ء
ابوالقاسم قشیری 986ء تا 1072ء
ابوالفضل محمد بن حسن ختلی 1009ء تا 1072ء
علی ہجویری 986ء تا 1072ء
عبدالقادر جیلانی1077ء تا 1166ء
رزاق علی گیلانی 1093ء تا 1208ء
معین الدین چشتی 1141ء تا 1230ء
فرید الدین عطار 1145ء تا 1220ء
ابن عربی 1165ء تا 1240ء
عبد الوھاب 1492ء تا 1565ء
مجدد الف ثانی 1564ء تا 1624ء
شاہ ولی اللہ 1703ء تا 1762ء
عبدالعزیز پرہاروی 1792ء تا 1824ء
برصغیر پاک و ہند میں اشاعت اسلام کے لیے صوفیا اکرام کا کردار بھی بہت اہم تسلیم کیا جاتا ہے۔ محمد بن قاسم کے سندھ کو فتح کرنے اور محمود غزنوی کے ہندوستان پر حملوں کے ساتھ ہی بزرگان دین اور صوفیا اکرام کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ جن میں میر سید علی ہمدانی،حضرت سید عون قطب شاہ علوی البغدادی،عبداللہ شاہ غازی، داتا گنج بخش ہجویری، ضیغم الدین محمد رزاق علی گیلانی، شاہ رکن عالم، خواجہ معین الدین چشتی، سلطان سخی سرور، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، بابا فرید گنج شکر، مخدوم علاؤ الدین صابر، شیخ نظام الدین اولیاء، شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی، شیخ المسلمین حضرت علامہ مولانا عبد العزیز پرہاڑوی ، سلیم چشتی، شیخ محمد غوث گوالیاری، مخدوم عبد القادر ثانی، شیخ داؤد کرمانی، شاہ ابوالمعالی، ملاشاہ گادری، شاہ اکبر داناپوری، حضرت خواجہ باقی باللہ، حضرت میاں میر، حضرت مجددالف ثانی، شاہ ولی اللہ، مرزا مظہر جان جاناں ،اور شاہ غلام علی، خواجہ غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری، کے علاوہ دیگر بے شمار ہستیاں شامل ہیں۔ ان صوفیا کے حسن اخلاق اور تبلیغ دین کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا۔
شیخ سنائی، مولانا جامی، مولانا رومی، شیخ سعدی شیرازی، ضرت امیر خسرو، شاہ عبدالطیف بھٹائی، رحمان بابا، لعل شہباز قلندر، بابا بلھے شاہ
یہ درویشوں کا ایک سلسلہ ہے جو عبد القادر جیلانی (المتوفی561ھ / 1166ء) کے نام سے منسوب ہے۔ عبد القادر جیلانی حنبلی مذہب سے تعلق رکھتے تھے، بغداد میں ایک رباط (خانقاہ) اور مدرسہ کے ناظم تھے اور ان دونوں مقامات پر وعظ فرمایا کرتے تھے۔ بعد میں آپ کے وعظوں کا مجموعہ ”الفتح الربانی“ کے نام سے شائع ہوا۔ 1258ءمیں بغداد کی تباہی کے بعد رباط اور مدرسہ بھی ختم ہو گئے۔ شیخ کے بعد ان کے بیٹے عبد الوہاب (المتوفی593ھ / 1196ء) اور عبد الرزاق (المتوفی 603ھ / 1206ء) ان کے جانشین ہوئے۔ کچھ عرصہ کے بعد اس گروہ نے بہت ترقی کی اور پیری مریدی کا سلسلہ مستقل طور پر پھیل گیا۔ پیر اپنے جس مرید کو کامل سمجھتا تھا اس کو خرقہ دے کر دوسرے مقامات یا ممالک میں مذہب کی اشاعت کے لیے روانہ کردیتا تھا۔ شیخ کی زندگی ہی میں مختلف مریدوں نے مختلف ممالک میں شیخ کی تعلیمات کی تلقین شروع کردی۔ پاک و ہند میں بھی طریقت کے دوسرے سلسلوں سے سلسلہ قادریہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں یہ سلسلہ حضرت شیخ محمد الحسنی جیلانی، شیخ عبد القادر ثانی، حضرت شاہ کمال کیتھلی اور حضرت شاہ سکندر محبوب الٰہی کے ذریعے پہنچا۔ برصغیر پاک و ہند میں کئی معروف علماءاور صوفی بزرگ اس سلسلہ سے متعلق رہے ہیں۔
یہ مشہور روحانی سلاسل میں سے ہے اس سلسلہ کے پیروکار سہروردی کہلاتے ہیں، جو زیادہ تر ایران، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں ہیں۔ اس سلسلہ کے بانی شہاب الدین سہروردی تھے۔ اضی نجم الدین ،عبد الطیف دارُ الملک، قاضی محمود وغیرہ نے بھی سہروردیہ سلسلہ کی تنظیم اور اس کی ترویج و اِشاعت میں کافی جدوجہد کی۔ اپنے اثر اور فیض رسانی کے معاملہ میں سہروردیہ سلسلہ پنجاب اور سندھ تک ہی محدود رہا۔ ہندوستان کے دیگر علاقوں میں اِس نے عام رواج نہ پایا۔ لیکن شہرت کے اعتبار سے شیخ بہاء اُلدین زکریا ملتانی ،شیخ رُکن الدین ملتانی اور مخدوٗم جہانیاں جہاں گشت جیسے جید علما اور اولیاء کی لِیاقت اور رِیاضت کا نور اُن کے علاقوں تک محدود نہ رہا بلکہ اُن کی رُوحانی شہرت ہندوستان کی حدود کو پار کر کے اِسلامی ممالک میں بھی پھیل گئی۔
فقرا اور درویشوں کا مسلک اور سلسلہ جس کے بانی حضرت علی کی نویں پشت میں سے ایک بزرگ ابو اسحاق شامی تھے۔ بعض روایات کے مطابق یہ بزرگ افغانستان کے شہر چشت میں مقیم ہوئے اور بعد میں شام میں اقامت پزیر ہوئے اور وفات پر وہیں دفن ہوئے۔ابو اسحاق شامی چشتی کے بعد سلسلہ چشتیہ کا فروغ خواجہ مودود چشتی کے ذریعہ بہت ہوا ان کے زمانے میں سلسلہ چشتیہ بلخ سے بغداد و ہند تک پہنچ چکا تھا اس لیے آپ کو سلسلہ چشتیہ کے امام طریقت اور شیخ الشيوخ بھی کہا جاتا ہے۔بعض لوگ اس سلسلے کا بانی ابو احمد ابدال کو سمجھتے ہیں۔ جو افغانستان کے شہر چشت کے مشہور و معروف بزرگ ہیں۔ لیکن پاک و ہند میں اس سلسلہ کا مبلغ معین الدین چشتی کو کہا جاتا ہے۔ جن کے خلیفہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی تھے۔ ان کے خلیفہ بابا فرید الدین گنج شکر تھے۔بابا فرید الدین گنج شکر کے مشہور و معروف چار خلیفہ ہوئے۔
علی احمد صابر کلیر
نظام الدین اولیاء
جمال الدین ہانسوی
بدرالدین اسحاق
سلسلہ شاذلیہ تصوف کا ایک سلسلہ ہے جس کے بانی ابوالحسن شاذلی بن عبد اﷲ شریف حسینی المغربی (پیدائش591 ہجری۔ وفات656ہجری) سیدنا ابو الحسن کا نام علی بن عبد اللہ شاذلی ہے جو قریہٴ غمارہ(اسکندریہ ) میں پیدا ہوئے۔ پیدائش کا سن 591ہجری ہے اور ملک یمن کے صحرائے عیذاب میں ساحل کے قریب بمقام مخا رحلت فرمائی۔(صحرائے عیذاب وادی ہمان کے نزدیک مصر میں واقع ہے) وفات کا سن 656 ہجری ہے۔ اور شاذلہ جو جبل زعفران کے نزدیک تیونس میں واقع ہے کی نسبت سے شاذلی کہلاتے ہیں سیدنا ابو الحسن علی بن عبد اللہ الشاذلی نسباً سادات بنی حسن سے ہیں۔ جن کا 17 واسطوں سے نسب حسن بن علی کے ساتھ ملتا ہے۔ آباواجداد کا مولد ومسکن مغربی اقصیٰ مراکش (شمالی افریقا)ہے۔ موصوف نے اوائل عمری میں تونس میں مقیم ہو کر تحصیل علم کی اور طریقت میں تونس کے شیخ المشائخ عبد السلام بن مشیش سے فیضیاب ہوئے طریقہ شاذلیہ بواسطہ جابر جعفی سیدنا امام حسن ؓ سے ملتا ہے۔تصوف میں سلسلہ شاذلیہ مشہور سلسلہ ہے ،جو مصر ،تیونس، ترکی ،االجزائر اور دیگر ممالک میں رائج ہے، پاکستان کے علاقہ کوہاٹ میں آباد ہیں ۔
سلسلہ نقشبندیہ یا طریقتِ نقشبندیہ روحانیت کے مشہور سلاسل میں سے ہے، اس سلسلے کے پیروکار نقشبندی کہلاتے ہیں جو پاکستان، بھارت کشمیر کے علاوہ وسطِ ایشیا اور ترکی میں کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ اس روحانی سلسلہ کے بانی شیخ بہاؤ الدین نقشبند ہیں جو بخارہ (ازبکستان) کے رہنے والے تھے۔نقشبندیہ سلسلے کا قیام سب سے پہلے ترکستان میں ہوا۔ یہ اپنی تعلیم محبت کے باعث ان کی اجتماعیت کا اہم جز بن گیا۔ خواجہ احمدیسوی (المتوفی1166ء)اس سلسلہ کے سرخیل ہیں۔ جنھیں لوگ خواجہ عطا کہتے تھے۔ ان کے بعد خواجہ عبد الخالق غجدوانی (المتوفیٰ 1179ء )کے ذریعہ اس سلسلے کے روحانی نظام کو اِستحکام ملا۔ ان کے بعد خواجہ بہا الدین نقشبند (1389ء-1318ء) کی ذات با برکات تھی جن کی وجہ سے اس سلسلے کو قُبولیتِ عام اور شہرت تام ملی۔ ان کی بے پناہ جدوجہد کی وجہ سے ہی آپ کے بعد اس سلسلہ کا نام سلسلۂ نقشبندیہ کے طور پر مشہور ہو گیا۔اکبر بادشاہ کے عہد میں خواجہ باقی باللہ نے نقشبندی سلسلے کو ہندوستان میں اِستحکام بخشا۔ اُن کے حلقۂ مرید ین میں سے ایک بڑی ہی نام ور شخصیت شیخ احمد سرہندی مجدّد الف ثانی ہیں۔ اس سلسلہ کی ترویج و اشاعت میں آپ نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ تحریک تصوف میں مجدّد صاحب کی ایک بڑی خدمت یہ ہے کہ انھوں نے شریعت اور سنت کی اِتباع پر زور دے کر رسمی طور پر داخل ہو جانے والے غیر اِسلامی عناصر کو اسلا می فکر سے بالکل علاحدہ کر دیا۔ اور تحریک تصوف میں پھر سے نئی جان ڈال دی۔ اس سلسلے کے مشہور بزرگوں نے مثلاً : خواجہ محمد معصوم خواجہ سیف الدین، شاہ ولی اللہ، مرزا مظہر جان جاناں اور شاہ غلام علی دہلوی، خواجہ غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری، ، میاں شیر محمد شرقپوری، سید محمد اسماعیل شاہ بخاری دورِ حاضر مین سید میر طیب علی شاہ بخاری، حضور گنج عنایت، خواجہ سید عبدالمالک شاہ خواجہ نور محمد فنا فی الرسول بابا نظام الدین اولیاء کیانوی وغیرہ نے سلسلے کی ترویج و اِشاعت میں بے حد کامیاب کوششیں کیں
سلسلہ سیفیہ تصوف روحانیت اور طریقت و سلوک کے جدید سلاسل میں ایک مشہور و معروف سلسلہ عالیہ ہے۔ جس نے بہت کم عرصہ میں حقیقی روحانیت، اتباع شریعت اور اخلاص فی الدین کی وجہ سے نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ سلسلہ سیفیہ کے بانی ” شیخ العرب و العجم آخوندزادہ سیف الرحمن مبارک ہیں۔ درحقیقت یہ تاریخ میں نقشبندیت کا وہ روشن مینار ہیں۔ جو نور عشق رسول ﷺ کی کرنیں چار سو پھیلا رہا ہے۔یہ سلسلہ آخوند زادہ سیف الرحمن نام کی نسبت سے سیفی کہلاتا ہے، اُن کے مریدین اور پیروکاروں کو سیفی کہا جاتا ہے۔ سیفی سلسلہ کے افراد مختلف عرب ممالک، پاکستان، یورپ، ایران، افغانستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں کثیر تعداد میں موجود ہیں۔اس سلسلہ عالیہ میں چاروں سلسلہ ہائے تصوف نقشبندیہ، قادریہ، چشتیہ اور سہروردیہ کی باقاعدہ خلافت و اجازت دی جاتی ہے۔ سند یا ارشاد خط حاصل کرنے والے شخص کو آگے بیعت کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اور ان سلاسل کے تمام اسباق و اوراد و وظائف سالکین کو درجہ بدرجہ سکھائے جاتے ہیں اور خلافت مطلق انہی کو ملتی ہے جو پابند شریعت ہوں۔ اور ان چاروں سلاسل کے تمام اسباق مکمل کر لیں۔ ان سلاسل اربعہ میں وہ خلفاء جن کو باقاعدہ طور پر سند خلافت جاری کی جا چکی ہے ان کی تعداد 40 ہزار سے متجاوز ہے۔