یہ کتاب اصول حدیث پرسب سے قدیم لکھی گئی ہے، یہ کتاب ایک جلد میں ڈاکٹر محمد عجاج الخطیب کی تحقیق سے بیروت سے مطبوع ہے۔
یہ مصطلح الحدیث پر منظم لکھی جانے والی پہلی کتاب ہے۔اس کتاب میں علوم الحدیث کی پچاس انواع کا ذکر ہے، یہ کتاب ڈاکٹر معظم حسین کی تحقیق سے مصر سے مطبوع ہے۔
اصول حدیث کے موضوع پرابو بکر احمد بن ثابت المعروف بالخطیب بغدادی(ف463ھ)نے”الکفایہ فی علم الروایہ”اور”الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع” کے نام سے دو کتابیں لکھیں۔
یہ اس موضوع کی سب سے اہم اور جامع کتاب ہے۔اس میں مصنف نے علم حدیث کی65، اقسام کا ذکر کیا ہے۔
یہ اصول حدیث پر مختصر مگر جامع متن ہے ۔پھر موصوف نے خود ہی اس کی شرح بھی لکھی۔
موصوف کی اس موضوع پر بڑی اہم کتا ب ہے اس میں مولف نے93، اقسام کا ذکر کیا ہے۔یہ کتاب در اصل موصوف نے امام نووی کی”التقریب والتیسیر لمعرفۃ احادیث البشیر والنذیر”کی شرح کی ہے
یہ ملک شام کے عالم ہیں انہوں نے اس موضوع پر موجودہ دور کی عمدہ ترین کتا ب لکھی ہے۔اس میں علماء کی آراء کو آسان انداز میں ذکر کیا ہے۔
اس کے علاوہ اور بھی کئی کتب اس موضوع کی بڑی اہم ہیں مثلاً: علوم الحدیث از ڈاکٹر صبحی صالح (ف1403ھ)، تیسیر مصطلح الحدیث از ڈاکٹر محمود الطحان ، توجیہ النظر الی اصول الاثراز شیخ طاہر الجزائری، قواعد علوم الحدیث از ظفر احمد عثمانی، اصول الحدیث علومہ ومصطلحہ از ڈاکٹر محمد عجاج الخطیب، منہج النقد فی علوم الحدیث از ڈاکٹر نور الدین عتر وغیرہ۔اردو میں ڈاکٹر عبد الروف ظفر ؒ کی علوم الحدیث اور التحدیث فی علوم الحدیث، سید زکریا غوری کی علوم الحدیث، ڈاکٹر سہیل حسن کی معجم اصطلاحات الحدیث، مولانا حنیف ندوی کی علوم الحدیث، ڈاکٹر خالد علوی کی اصول الحدیث قابل ذکر ہیں۔
اسماء الرجال کا فن اس امت کا قابل فخر کارنامہ ہے جس کے بارے مشہور مستشرق ڈاکٹر اسپرنگر نے الاصابہ فی تمییز الصحابہ کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ’’کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں گزری، نہ آج موجود ہے جس نے مسلمانوں کی طرح اسماء الرجال کا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو جس کی بدولت آج پانچ لاکھ شخصوں کا حال معلوم ہو سکتا ہو۔‘‘
اس کتاب کو حروف تہجی کے اعتبار پر مرتب کیا گیا ہے۔
اس کو مصنف نے حروف تہجی کے اعتبار سے مرتب کیا ہے اور عہد صحابہ سے اپنے دور تک کے رجال حدیث کے حالات قلمبند کئے ہیں ان میں مردوعورت، ثقہ وضعیف سب شامل ہیں۔ امام بخاریؒ نے ایک الگ کتاب”الضعفاء” کے نام سے ترتیب دی ہے جو حروف تہجی کے اعتبار سے مرتب ہے جو صرف ضعیف راویوں پر محیط ہے۔
نے اس کتاب کو حروف معجم پر ترتیب دیا ہے اور ہر حرف کے تحت اس کے اسماء ذکر کئے ہیں، یہ کتاب ایک ہی جلد میں مطبوع ہے۔
کی یہ کتاب جرح وتعدیل کے باب میں متقدمین کی کتابوں میں سب سے جامع ہے، اس کتاب میں (18050)حضرات کا تذکرہ آیا ہے، یہ کتاب نو جلدوں میں ہندوستان سے شائع ہوئی تھی۔
کی ہے اس میں تراجم صحابہ کی تعداد3500 ہے اور معجم کے لحاظ سے صحابہ کے نام مرتب ہیں۔
اس میں 7554صحابہ کرام کے تراجم ہیں۔اور نام کو حروف تہجی کے لحاظ سے مرتب کیا گیا ہے۔
کی ہے اس میں 1176رواۃ کے تراجم کے علاوہ36 شیوخ کے تراجم بھی ہیں۔اس کتاب کو راویوں کے طبقات کے اعتبار سے مرتب کیا ہے، انہوں نے پہلے صحابہ کرام پھر تابعین پھر بعد میں آنے والے حضرات پر مشتمل کل گیارہ طبقات بنائے ہیں۔ یہ کتاب چار جلدوں میں کئی مرتبہ طبع ہو چکی ہے۔ موصوف کی ایک اور کتاب”میزان الاعتدال”کے نام سے ہے جو حروف معجم کے اعتبار سے مرتب ہے، اس کتاب میں (11053)سوانح موجود ہیں،یہ کتاب کئی مرتبہ چار درمیانے سائز کی جلدوں میں مطبوع ہوئی ہے، اسی طرح موصوف کی ایک اور کتاب”المغنی فی الضعفاء”بھی ہے۔
مصنف نے اس کتاب میں حوادث ووفیات دونوں کو ذکر کیا ہے اسے سنین کے اعتبار سے مرتب کیا ہے اور اس کا آغاز پہلی صدی ہجری سے لے کر ساتویں صدی ہجری تک ہوتا ہے۔مصنف نے اس کوستر طبقات پرتقسیم کیا ہے اور ہر طبقے کے لئے دس سال رکھے ہیں۔سیر اعلام النبلاء اسی کا اختصار ہے جو مصنف نے خود کیا ہے۔
موصوف کی ایک اور کتاب “لسان المیزان”کے نام سے ہے اس کتاب میں ان حضرات کا ذکر ہے جن کا ذکر علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں نہیں کیا، انہوں نے تقریبا (14343) سوانح کا تذکرہ کیا ہے، یہ کتاب بڑے سائز کی چھ جلدوں میں ہندوستان سے مطبوع ہے۔
یہ کتاب دراصل حافظ عبد الغنی مقدسی (متوفی600ھ) کی”الکما ل فی اسماء الرجال”جو صحیحین اور سنن اربعہ کے رجال پر مشتمل ہے کی تہذیب ہے علامہ مزی نے اپنی تہذیب میں ان راویان علم وحاملین حدیث کا تذکرہ حروف تہجی پر مرتب کیا ہے۔ اخیر میں عورتوں کا تذکرہ ہے۔
ابو عمرو کشی (م370ھ) کی”رجال کشی”علامہ نجاشی(م450ھ) کی “رجال نجاشی “محمد بن حسن طوسی کی”رجال طوسی، تہذیب الاحکام الاستبصار”اور علامہ مامقانی کی”تنقیح المقال” زیادہ مشہور ہیں۔