ناقلین کے اعتبار سے حدیث کی دو اقسام ہیں: الف:۔متواتر،ب:۔ آحاد، پھر متواتر کی آگے دو قسمیں ہیں :۱۔ متواتر لفظی، ۲۔ متواتر معنوی۔ جبکہ آحاد کی چار اقسام ہیں :1۔ مشہور،2۔مستفیض،3۔ عزیز،4۔ غریب۔پھر آگے غریب کی دو اقسام ہیں : ۱۔ غریب مطلق/فردمطلق ۲۔ غریب نسبی/فرد نسبی۔
لغۃ:اس کا معنی لگاتار اور مسلسل ہونے کا ہے،اصطلاحاً:متواتر وہ حدیث ہے جسے ایک اتنی بڑی جماعت روایت کرے کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا محال ہو اور یہ تعداد کا وصف ہر طبقہ میں ہو۔اقسام:(۱)متواتر لفظی کا مطلب ہے کہ جس کے لفظ اور معنی میں تواتر ہو، (۲) متواتر معنوی کا مطلب ہے کہ جس حدیث کے معنی تواتر سے ثابت ہوں مگر لفظ نہیں۔کتب:اس موضوع کو مد نظر رکھتے ہوئے علماء نے کتب تحریر کی ہیں جیسے: قطف الازھار المتناثرۃ فی الحدیث المتواترہ از حافظ جلال الدین سیوطی ؒ، اس کتاب میں113 متواتر روایات موجود ہیں، نظم المتناثر فی الحدیث المتواتر از علامہ محمد بن جعفر کتانی، اس کتاب میں310 متواتر احادیث موجود ہیں۔
واحد کی جمع احاد ہے،اصولیین کی اصطلاح میں خبر احاد سے مراد وہ حدیث ہے جس میں متواتر کی شرائط نہ پائی جائیں۔اور محدثین کی اصطلاح میں خبر واحد سے مراد وہ حدیث ہے جس کو کوئی ایک راوی بیان کرے
یہ شھر سے اسم مفعول ہے جس کا معنی ظاہر کرنے کا ہے، اصطلاحاً: مشہور وہ حدیث ہے جسے تین یا تین سے زائد افراد نقل کریں مگر وہ تواتر کی حد کو نہ پہنچی ہو۔مشہور روایت صحیح، حسن اور ضعیف ہو سکتی ہے۔کتب:اس موضوع کو مد نظر رکھتے ہوئے علماء نے کتب تحریر کی ہیں جیسے: المقاصد الحسنۃ فی بیان کثیر من الاحادیث المشتھرۃعلی الالسنۃ از حافظ شمس الدین محمد بن عبد الرحمن سخاوی (متوفی 902ھ)، کشف الخفاء ومزیل الالباس عما اشتھر من الاحادیث علی السنۃ الناس از شیخ اسماعیل بن محمد عجلونی(متوفی 1162ھ)، تمییز الطیب من الخبیث فیما یدور علی السنۃ الناس من الحدیث از ابو الضیاء عبد الرحمن بن دیبع شیبانی۔
یہ استفاض سے اسم فاعل ہے جو فاض الماء سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں، کثرت سے بہنا۔اصطلاح میں بعض کے بقول حدیث مشہور ہی کا نام حدیث مستفیض ہے اور بعض نے یہ فرق کیا ہے کہ حدیث کی جس سند کے ہر طبقہ میں رواۃ کی تعداد برابر ہو تو اس کو مستفیض کہتے ہیں۔
یہ عز یعز سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے، اس کا معنی قلیل ونادر اور قوی و مضبوط ہونا ہے، اصطلاحاً:وہ حدیث ہے جس کے راوی سند کے تمام طبقوں میں دو سے کم نہ ہوں، عزیز حدیث بھی کبھی صحیح، حسن یا ضعیف ہوتی ہے۔
یہ صفت مشبہ کا صیغہ ہے جس کا معنی اکیلا،منفرد ہونا ہے،اصطلاحا:وہ حدیث جس کی سند کے کسی طبقہ میں ایک راوی رہ جائے اسے حدیث غریب کہتے ہیں،اقسام:(1)فرد مطلق/غریب مطلق:وہ حدیث جس کی سند کے اولین طبقے (مراد یہ ہے کہ اصل سند میں غرابت ہو ، اصل سند سے مراد سند کا وہ طرف ہے جو صحابی سے شروع ہو) میں غرابت ہو۔ (2) فرد نسبی /غریب نسبی:وہ حدیث جس میں تفرد سند کے کسی بھی طبقہ میں پایا جاتا ہو۔ کتب:اس موضوع کو مد نظر رکھتے ہوئے علماء نے کتب تحریر کی ہیں جیسے:غرائب مالک از امام علی بن عمر (متوفی 385ھ)، الافراد از امام دار قطنی، السنن التی تفرد بھا بکل سنۃ منھا اھل بلد ۃ از امام سلیمان بن اشعث بن اسحاق (متوفی 225ھ)
کل چار ہیں :1۔حدیث قدسی،2۔ حدیث مرفوع،3۔ حدیث موقوف ، 4۔ حدیث مقطوع۔
یہ قدس کی طرف نسبت ہے جو پاک کے معنی میں ہے یعنی وہ حدیث جو اللہ کی ذات قدسی کی طرف منسوب ہو۔اصطلاح میں اس سے مراد وہ حدیث ہے جو نبی اکرم ؐاللہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے بیان کریں۔ علماء نے ان کو الگ کتب میں بھی درج کیا ہے مثلاً: الاتحافات السنیۃ بالاحادیث القدسیۃ از امام عبد الروف بن تاج مناوی(متوفی 1031ھ)جس میں انہوں نے 272 دو سو بہتر احادیث قدسیہ ذکر کی ہیں۔
یہ رفع سے اسم مفعول کا صیغہ ہے جس کا معنی اٹھانا اور بلند کرنا ہے،اصطلاح میں مرفوع اس حدیث کو کہتے ہیں جس قول، فعل یا تقریر کی نسبت رسو لؐ اللہ کی طرف کی گئی ہو۔ اس لحاظ سے علماء نے مرفوع کی چار اقسام (مرفوع قولی، مرفوع فعلی، مرفوع تقریری، مرفوع وصفی) بیان کی ہے۔
یہ وقف بمعنی ٹھہرنا سے اسم مفعول ہے۔اصطلاح میں اس سے مراد وہ قول یا فعل ہے جس کی نسبت صحابی کی طرف ہو۔تو موقوف روایت قولی،فعلی اور تقریری ہو سکتی ہے
یہ قطع بمعنی کاٹنا سے اسم مفعول ہے۔اصطلاح میں اس سے مراد وہ قول، فعل ہے جس کی نسبت تابعی کی طرف ہو۔ اس کی دو اقسام ہیں مقطوع قولی اور فعلی۔
اس مسند حدیث کو کہتے ہیں جس کو عادل اور ضابط راوی دوسرے عادل وضابط راوی سے روایت کرے، یہاں تک کہ وہ نبی اکرم ﷺ یا صحابی و تابعی تک پہنچ جائے اور وہ معلل یا شاذ نہ ہو۔
وہ حدیث ہے جس کی سند متصل ہو، راوی عادل ہو مگر قلیل الضبط ہو اور اس میں شذوذ و علت بھی نہ ہو۔
وہ حدیث ہے جس میں صحیح و حسن کی صفات نہ پائی جاتی ہوں
یہ ارسل سے اسم مفعول ہے جس کا معنی چھوڑدیا گیا ہے، اصطلاح میں اس سے مراد وہ حدیث ہے جس میں تابعی صحابی کا واسطہ چھوڑ کر رسول اللہ ﷺ سے نقل کرے۔
یہ اعضل سے اسم مفعول ہے اصطلاح میں اس سے مراد وہ حدیث ہے جس میں دو یا دو سے زیادہ راوی پے در پے ساقط ہوں۔
یہ دلَّس سے اسم مفعول کا صیغہ ہے اور اس کا معنی سامان میں کسی عیب کو خریدار سے پوشیدہ رکھنے کا ہے۔اصطلاح میں تدلیس سے مراد یہ ہے کہ سند میں عیب کو مخفی رکھ کر اس کے ظاہر کو حسین وجمیل کر کے پیش کیا جائے۔
اس سے مراد وہ حدیث ہے جسے راوی کسی ایسے شخص سے روایت کرے جس سے اس کی معاصرت کے باوجود ملاقات یا سماع ثابت نہ ہو۔
یہ شذَّ کا اسم فاعل ہے اور اس کا معنی الگ ہونا ہے،اصطلاح میں اس سے مراد وہ حدیث ہے جس کو ایک مقبول راوی اپنے سے افضل راوی کی مخالفت میں روایت کرے۔
یہ حفِظ کا اسم مفعول ہے اور شاذ کے مد مقابل ہے،اصطلاح میں اس سے مراد وہ حدیث ہے جسے اوثق راوی، ثقہ راوی کی مخالفت میں بیان کرے۔ واضح رہے کہ شاذ مردود اور غیر مقبول حدیث ہوتی ہے جب کہ محفوظ مقبول ہوتی ہے۔
یہ عرف (پہچاننا) کا اسم مفعول ہے اور یہ منکر کی ضد ہے،اصطلاح میں اس سے مراد وہ حدیث ہے جسے ثقہ، ضعیف راوی کی روایت کی مخالفت میں بیان کرے۔
یہ انکر(نہ پہچاننا) کا اسم مفعول ہے۔اصطلاح میں اس سے مراد وہ حدیث ہے جس کو ضعیف راوی ثقہ راوی کی مخالفت میں بیان کرے۔ شاذ کا راوی مقبول ہوتا ہے جبکہ منکر کا راوی ضعیف ہوتا ہے۔
یہ ترک سے اسم مفعول ہے جس کا معنی چھوڑا ہواہے،اصطلاح میں اس سے مراد وہ حدیث ہے جس کے راوی پر جھوٹ یا کسی قول و فعل کی وجہ سے فسق کا الزام عائد کیا گیا ہو۔
اس کو معلول بھی کہتے ہیں یہ اعلَّ کا اسم مفعول ہے اور اس کا معنی ہے کسی چیز کے ساتھ مشغول رکھنا,اصطلاح میں اس سے مراد وہ حدیث ہے جس میں کسی ایسی علت کا پتہ چلے جس سے حدیث میں ضعف واقع ہو جاتا ہو۔
یہ قلب سے اسم مفعول ہے جس کا معنی الٹ پلٹ کرنا ہے،اصطلاح میں اس سے مراد وہ حدیث ہے جس کی سند یا متن میں راوی تقدیم یا تاخیر کر دے اور ایک لفظ کو دوسرے لفظ سے بدل دے، قلب کبھی سند میں واقع ہوتا ہے اور کبھی متن میں۔ مقلوب کی دو قسمیں ہیں: مقلوب السند، مقلوب المتن۔
یہ انقطع بمعنی ٹوٹنا سے اسم فاعل ہے، اصطلاح میں اس سے مراد وہ حدیث ہے جس کی سند متصل نہ ہو اور اس میں انقطاع کسی بھی مقام پر پایا جاتا ہو۔
یہ علّق سے اسم مفعول ہے،اصطلاح میں اس سے مراد وہ حدیث ہے جس کی سند کی ابتداء سے ایک یا ایک سے زیادہ راوی مسلسل محذوف ہوں اور حدیث کو ان راویوں کی طرف منسوب کیا گیا ہو۔
یہ اضطرب سے اسم فاعل ہے جو بے چین ہونے کے معنی میں مستعمل ہے،اصطلاح میں اس سے مراد وہ حدیث ہے جو ایسے مختلف طریقوں سے مروی ہو جو قوت میں مساوی اور برابر ہو۔ جن میں ترجیح اور جمع ممکن نہ ہو۔
یہ ادرج سے اسم مفعول ہے جس کا معنی ہے کسی ایک چیز کو دوسری چیز میں داخل کرنا، اصطلاح میں اس سے مراد وہ حدیث ہے جس کی سند یا متن میں ایسی زیادتی پائی جائے جو اس کی اصل میں نہ ہو۔اس اعتبار سے اس کی دو قسمیں ہیں : مدرج المتن، مدرج السند۔
یہ اتصل کا اسم فاعل ہے جس کا معنی ملنے کے ہیں،اصطلاح میں اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند شروع سے آخر تک متصل ہو۔ کوئی راوی چھوٹا نہ ہو خواہ وہ حدیث مرفوع ہو یا موقوف یا مقطوع۔
وضع سے اسم مفعول کا صیغہ ہے اور موضوع اس حدیث کو کہتے ہیں جس کو گھڑ کر جھوٹ نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کر دیا جائے۔
یہ صحف سے اسم مفعول ہے جس کا معنی صحیفہ میں غلطی و خطا کرنے کے ہیں، ابن حجر عسقلانی ؒ نقل کرتے ہیں کہ جس میں نقطوں کی تبدیلی کر کے ایک حرف یا چند حروف کو بگاڑ دیا گیا ہو مگر ظاہری صورت میں فرق نہ آیا ہو اسے مصحف کہتے ہیں جیسے “ستاً” کو “شیاً “بنا دیا گیا ہے۔محرَّف حرَّف سے اسم مفعول ہے جس کا معنی حروف میں تبدیلی کا واضح ہونا ہے،اصطلاح میں محرف ایسی تصحیف کو کہا جاتا ہے جس میں خط کی صورت اور حروف کی تعداد کو باقی رکھتے ہوئے اس کے حروف کی شکل میں تبدیلی کی جاتی ہو جیسے احول کو اجدب کرنا۔ کتب:اس موضوع کو مد نظر رکھتے ہوئے علماء نے کتب تحریر کی ہیں جیسے:التصحیف والتحریف وشرح ما یقع فیہ از ابو احمد الحسن بن عبد اللہ عسکری ( متوفی382ھ)، التصحیف از علی بن عمر بن احمد دار قطنی (متوفی 385ھ)، اصلاح خطاء المحدثین از ابو سلیمان احمد بن ابراہیم خطابی (متوفی 388ھ)۔
عالی، علا سے اسم فاعل ہے اور یہ نازل کی ضد ہے، اصطلاح میں عالی وہ سند ہے جس کے راویوں کی تعداد بہ نسبت دوسری سند کے کم ہو اور سند میں اتصال ہو، نازل نزل کا اسم فاعل ہے جو کہ عالی کی ضد ہے،اصطلاح میں اس سے مراد وہ حدیث ہے جس کی سند کے رواۃ کی تعداد بہ نسبت دوسری سند کے زیادہ ہوں۔
ایسی حدیث جس کی سند میں دوراویوں کے درمیان کوئی راوی بڑھا دیا جائے، حالانکہ سند اس کے بغیر ہی مکمل اور متصل ہو۔
:“اقران”قرین کی جمع ہے ،جس کا معنی ساتھ اور ہم مکتب کے ہیں،اصطلاح میں اس سے مرادوہ روایت ہے جس کے راوی عمر اور اسناد میں متقارب ہوں،اور ایک ہی طبقہ کے شیوخ سے دونوں نے علم حاصل کیا ہو،مثلا ً سلیمان تیمی کا مسعر سے روایت لینا مگر مسعر کا سلیمان سے روایت لینا ثابت نہیں حالانکہ دونوں ہی برابر کے ساتھی ہیں ۔ اس سلسلہ میں ابو شیخ بن عبد اللہ اصبہانی(م369ھ) کی کتاب” روایۃ الاقران” مشہور ہے۔
اس میں دونوں ہم مکتب اور ساتھیوں کا آپس میں روایت کرنا مثلاً: حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ کا باہم روایت کرنا۔ اس سلسلہ میں امام علی بن عمر دار قطنی (م385ھ ) کی مشہور کتاب “المدبّج”قابل ذکر ہے۔
اس سے مراد ایسی حدیث جس کی سند کے تمام راوی صیغہ ادا یا کسی دوسری کیفیت میں جو روایت سے تعلق رکھتی ہو متفق ہوں ۔ اس میں علامہ ذہبیؒ کی کتاب”العذب السلسل فی الحدیث المسلسل”اورامام سیوطیؒ کی”المسلسلات الکبری” کافی مشہور ہیں ۔