usool-e-Fiqh

نص سے مراد قرآن کریم کی کوئی آیت یا رسول اللہ کی کوئی حدیث ہے اور اس کی دلالت سے مراد وہ طریقہ یا کیفیت ہے جس سے اس کا مطلب سمجھا جاتا ہے۔اس کی چار قسمیں ہیں جو کہ درج ذیل ہیں : 

یہ کہ نص اپنے سے مقصود معنی کی واضح الفاظ میں صراحت کرے جیسے اللہ تعالیٰ کے ارشاد “فاجتنبوا الرجس من الاوثان واجتنبوا قول الزور”    ( تم بتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹ سے بچو) میں اس بات کی دلالت کہ جھوٹی گواہی دینا حرام اور جرم ہے۔

یہ کہ نص کے الفاظ میں کوئی ایسا اشارہ پایا جائے جو اس کے معنی پر دلالت کرے (اس کا پتہ دے) جیسے اللہ تعالیٰ کے ارشاد:”فان خفتم ان لا تعدلوا فواحدۃ” ( اگر تم ڈرو کہ عدل نہ کر پاو گے تو ایک ہی عورت سے نکاح کرو) میں اس طرف اشارہ ہے کہ بیوی یا بیویوں سے عدل کرنا واجب اور اس پر یا ان پر ظلم کرنا حرام ہے۔

یعنی کسی ایک مسئلہ میں نص کا حکم کسی دوسرے مسئلہ میں اس کے حکم پراز خود دلالت کرے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کے ارشاد”ولا تقل لھما اف”( اور اپنے ماں باپ کو اف تک نہ کہو) میں اس بات کی دلالت کہ ماں باپ کو مارنا یا انہیں گالی دینا با لاولیٰ حرام ہے۔

یہ کہ نص کے الفاظ کسی ایسی چیز پر دلالت کریں کہ ان الفاظ کا مطلب اس کو عقلی یا شرعی طور پر مقدر مانے بغیر سمجھ میں نہ آئے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کے ارشاد:”حرمت علیکم امھاتکم وبناتکم” (تم پر حرام کی گئی ہیں تمہاری مائیں اور بیٹیاں) کا اس چیز پر دلالت کرنا کہ یہاں ’’ ان سے نکاح‘‘ کو مقدر مانا جائے کیونکہ حرام اسی کو کہا گیا ہے

ظاہر:  اس سے مراد وہ لفظ ہے جس کا مطلب کسی قرینہ کی مدد کے بغیر از خود ظاہر ہوتا اور ذہن تک پہنچتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کے ارشاد”واحل اللہ البیع وحرم الربوٰ”   ( اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا، میں بیع کی حلت اور سود کی حرمت)۔

نص:  اس سے مراد وہ لفظ ہے جس کا مطلب کلام میں اصلاً مقصود ہوتا ہے۔

مفسر:  اس سے مراد وہ لفظ ہے جو اپنا مطلب کسی تفسیر (تشریح) کے ذریعہ بتاتا ہے۔ یہ تفسیر کبھی اس کے ساتھ ہوتی ہے اور کبھی اس کے باہر جیسے اللہ تعالیٰ کے ارشاد “فاجلد وھم ثمانین جلدۃ” (انہیں اسی کوڑے لگاو) میں لفظ فاجلدوھم کیونکہ اس کی ثمانین جلدۃ سے تفسیر کی گئی ہے۔

محکم:  اس سے مراد وہ لفظ ہے جو اپنا مطلب اس طرح بتاتا ہے کہ وہ کوئی تاویل قبول نہیں کرتا۔

خفی: اس سے مراد وہ لفظ ہے جو چاہے اپنی جگہ واضح ہو لیکن جس شخص پر اس کے معنیٰ کو نافذ ہونا ہے، اس کے لحاظ سے وہ واضح نہیں ہے اور اس کا یہ واضح نہ ہونا صرف تحقیق اور اجتہاد ہی سے زائل ہوتا ہے جیسے لفظ “سارق (چور)” یہ اپنی جگہ اس شخص کے لیے بالکل واضح نہیں ہے جو چوری نہیں کرتا، بلکہ چالاکی اور پھرتی سے کسی کا مال اچکتا ہے۔

مشکل:  اس سے مراد وہ لفظ ہے جس کا معنی اس کے اندر پائے جانے والے کسی سبب کی بدولت واضح نہیں ہوتا جیسے کوئی ایسا مشترک لفظ جس کے لغت میں ایک سے زائد کئی معنی ہوں اور کلام میں اس کا جو معنی مراد ہے، اس کا تعین صرف تحقیق و اجتہاد ہی سے ہوسکتا ہے۔ جیسے آیت”والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلاثۃ قرو” ( اور طلاق پانے والی عورتیں تین قروء تک انتظا ر کریں) میں” قروء” کا لفظ۔ کیونکہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اس کے معنی حیض کے ہیں اور امام شافعیؒ کے نزدیک طہر کے اور لغت میں اس کے یہ دونوں معنی ہیں۔

مجمل:  اس سے مراد وہ لفظ ہے جس کا معنی اپنے اندر کئی احوال و احکام لیے ہوتا ہے اور وہ احوال و احکام اس وقت تک واضح نہیں ہوتے جب تک قرآن ان کی تفسیر نہ کرے (اگر وہ لفظ قرآن میں ہے) یا سنت سے ان کی تفسیر نہ ملے۔ جیسے آیت”حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر” ( تم پر مردار، خون اور سور کا گوشت حرام کیے گئے) میں لفظ”الدم”(خون)۔ اس کی تفسیر قرآن ہی کی ایک دوسری آیت نے کی ہے جس میں کہا گیا ہے۔”قل لا اجدفی ما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ الا ان یکون میتۃ اودما مسفوحا او لحم خنزیر” ( کہہ دیجیے کہ میرے اوپر جو وحی ہوئی ہے اس میں تو میں کسی چیز کو کسی کھانے والے پر حرام نہیں پاتا الا یہ کہ وہ مردار ہویا بہایا ہوا خون یا سور کا گوشت یہاں اس کی تفسیر “دما مسفوحا” (بہتے ہوئے خون) سے کی گئی ہے۔

متشابہ:  اس سے مراد وہ لفظ ہے جس کا معنی از خود ظاہر نہیں ہوتا یا اگر ظاہر ہوتا ہے تو اس کی حقیقت کا پتہ نہیں چلتا کیونکہ قرآن و سنت میں اسکی وضاحت نہیں کی گئی۔ اس لیے ناگزیر ہے کہ اس پر ایمان لانے کے بعد اس کی حقیقت کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے۔ اس متشابہ کی مثال جس کا نہ معنی معلوم ہے اور نہ حقیقت قرآن کریم کی بعض سورتوں کے شروع میں حروف مقطعات ہیں۔

استحسان لغت میں کسی چیز کو اچھا سمجھنا ہے جبکہ اصطلاح میں مجتہد کا کسی مسئلہ میں اس طرح حکم لگانے سے ہٹ جانا جس طرح اس نے اس جیسے کسی دوسرے مسئلہ میں لگایاہے۔اور اس کی وجہ کوئی قوی دلیل ہو۔یا  ظاہری علت سے مخفی علت کی طرف عدول کرنا بھی استحسان کہلاتا ہے۔

1۔ الاستحسان بالنص،2۔الاستحسان بالاجماع،3۔الاستحسان بالعرف،4۔الاستحسان بالضرورۃ، 5۔الاستحسان بالمصلحت، 6۔الاستحسان بالقیاس الخفی

۔ ما جعل علیکم فی الدین من حرج۔۔۔2۔ فمن اضطر غیر باغ ولا عاد۔۔۔، 3۔ما راہ المسلمون حسنا فھو عند اللہ حسنا۔۔، 4۔الضرورات تبیح المحظورات، 5۔ بشروا ولاتنفروا۔۔۔

٭۔امام شافعی ؒ نے استحسان کے بارے کہا:”الاستحسان تلذذوقول الھوی‘‘، ’’من استحسن فقد شرع”۔

٭۔بعض علماء اصولیین نے قیاس جلی اور استحسان کو قیاس خفی سے تعبیر کیا ہے۔

لغت میں قیاس کے معنی ناپنے اور اندازہ کرنے کے ہیں یا دو چیزوں کے درمیان مشابہت کرناہے اور اصطلاح میں کسی ایسی چیز کوجس کا حکم کتاب وسنت سے معلوم نہ ہو کسی ایسی چیز کے ساتھ رکھ کر اس کا حکم معلوم کرنا جس کا حکم کتاب وسنت میں مذکور ہو جبکہ ان دونوں کے درمیان کوئی مشترک علت ہو۔

٭۔قیاس کے ارکان:قیاس کے چار ارکان ہیں :1۔اصل،2۔ فرع،3۔علت،4۔حکم۔

 ٭۔قیاس کی اقسام : اس کی تین قسمیں ہیں:1۔قیاس اولی، 2۔ قیاس مساوی، 3۔ قیاس ادنی۔

٭۔قیاس کی شرائط:قیاس کے صحیح ہونے کے لئے پانچ شرائط ہیں :i۔ قیاس نص کے مقابلہ میں نہ ہو، ii۔احکام نص میں اس سے کسی قسم کا تغیر و تبدل نہ ہوتا ہو، iii۔علت قیاس غیر معقول اور مبہم نہ ہو،iv۔تعلیل کسی شرعی حکم کے لئے واقع ہو، نہ کہ امرِ لغوی کے لئے، v۔فرع کا حکم پہلے سے کسی نص سے ثابت نہ ہو۔

 علمائے اصول کی اصطلاح میں اجماع سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد کسی زمانہ میں امت کے تمام اہل علم کسی عملی مسئلہ کے شرعی حکم پر متفق ہوجائیں۔

٭۔اجماع کے واقع ہونے کا امکان: جمہور فقہا کہتے ہیں کہ اجماع ممکن ہے اور عملًا صحابہ کرامؓ کے زمانہ میں ہو چکا ہے۔مثلاًایک یہ کہ: پھوپھی اور بھتیجی یا خالہ اور بھانجی کو بیک وقت نکاح میں نہیں رکھا جاسکتا۔ دوسرا یہ کہ اگر سگے بہن بھائی نہ ہوں تو باپ کی طرف سے ہونے والے بہن بھائیوں کو سگے بہن بھائیوں کی جگہ دی جائے گی۔ تیسرا یہ کہ مسلمان عورت کا نکاح کسی غیر مسلم مرد سے نہیں ہوسکتا اور چوتھا یہ کہ مفتوحہ اراضی کو فاتحین کے درمیان اس طرح نہیں بانٹ دیا جائے گا جس طرح دوسرے اموال غنائم بانٹ دیے جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

امام شافعیؒ اگرچہ اجماع کے ممکن الوقوع ہونے کے قائل ہیں لیکن وہ عہد صحابہ کے بعد اس کے وقوع کو انتہائی نادر اور مشکل شمار کرتے ہیں۔

تقریبا یہی رائے امام احمد بن حنبلؒ کی بھی ہے وہ کہا کرتے تھے”جو شخص اجماع کا دعویٰ کرتا ہے وہ جھوٹا ہے”۔ (ارشاد الفحول:ص73)۔ اور ان کی رائے کو اکثر فقہائے محدثین نے اختیار کیا جیسے ابن حزمؒ، ابن تیمیہ اور شوکانیؒ وغیرہ۔

اجماع کے امکان کا سرے سے انکار صرف شیعہ اور بعض معتزلہ نے کیا ہے، تاہم شیعہ اہل بیت کے اجماع کو تسلیم کرتے اور اسے حجت مانتے ہیں۔

جمہور جو اجماع کی حجیت کے قائل ہیں، اس پر قرآن کی بعض آیات سے استدلال کرتے ہیں، جیسے:

“یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ”

“اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی، اطاعت کرو رسول کی اور اپنے اولی لامر کی”

اگر اس آیت میں اولی الامر سے مراد علماء لیے جائیں جیسا کہ حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں۔

“وَمَن یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاء تْ مَصِیْراً”

“اور جس شخص نے ہدایت معلوم ہوجانے کے بعد رسول ﷺ کی نافرمانی کی اور اہل ایمان کے راستہ کے سوا کسی دوسرے راستہ کا اتباع کیا اسے ہم اسی طرف لے جائیں گے جدھر وہ خود گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بہت بری جائے قرار ہے”

٭۔اگرچہ تمام آیات۔۔۔ جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں۔۔۔ صرف اپنے ظاہری معانی ہی سے اجماع کی حجیت پر دلالت کرتی ہیں۔

جمہور کا استدلال چند مرفوع احادیث سے بھی ہے:

ایک یہ ہے کہ:”میری امت کسی گمراہی پر مجتمع نہ ہوگی۔ اگر تم اختلاف دیکھو تو سواد اعظم کاساتھ دو:(ابن ماجہ بروایت حضرت انسؓ)

دوسری یہ ہے کہ: “میری امت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا، جو ان کی مدد نہیں کرے گا وہ انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آجائے‘”(بخاری و مسلم بروایت حضرت مغیرہ بن شعبہؓ)

 تیسری یہ کہ ’’ جس کو جنت کا بھر پور حصہ مطلوب ہو، اسے چاہیے کہ جماعت سے لگا رہے کیونکہ شیطان تنہا کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ دو کے ساتھ زیادہ دور ہوتا ہے‘‘۔ (ترمذی بروایت حضرت عمرؓ)

 امام شافعی ؒ نے اسی آخری حدیث سے اجماع کی حجیت پر استدلال کیا ہے۔ اگرچہ ان احادیث میں اکثر کی اسناد پر کلام کیا گیا ہے اور اپنے مطلوب پر ان کی دلالت بھی صرف ظنی قسم کی ہے

وقوع پذیر ہونے کے لحاظ سے اس کی دو قسمیں ہیں:

اجماع صریح:  اس سے مراد یہ ہے کہ وہ تمام علماء جن کا اجتہاد معتبر ہے کسی مسئلہ پر اس طرح متفق ہوں کہ ان میں سے ہر ایک اپنے قول یا فعل کے ذریعہ اپنی رائے کا اظہار کرے۔ اسی کی تفسیر امام شافعیؒ نے اپنے اس قول سے کی ہے:

’’ کسی چیز کو مجمع علیہ تم بلکہ ہر شخص اسی وقت کہتا ہے جب ہر عالم جس سے تم ملو، اسی کے مطابق تم سے بات کرے‘‘

جمہور فقہاء جو اس کو ممکن الوقوع مانتے ہیں، ان سب کا اتفاق ہے کہ کتاب و سنت کے بعد یہی قطعی حجت ہے جس کا انکار کرنے والے کو اسی طرح کافر قرار دیا جائے گا جیسے کتاب و سنت کا انکار کرنے والے کو۔

 اجماع سکوتی:  اس سے مراد یہ ہے کہ ایک یا چند اہل اجتہاد علماء کسی مسئلہ میں شرعی حکم بیان کریں، اس کی ان کے زمانہ میں شہرت ہوجائے پھر بھی دوسرے اہل اجتہاد علماء اس پر کوئی اعتراض نہ کریں۔ یہ اجماع اکثر حنفی علماء کے نزدیک حجت ہے لیکن اپنی قوت میں وہ اجماع صریح کی بہ نسبت کم تر ہے اس لیے وہ کہتے ہیں کہ اس کا انکار کرنے والے کو کافر قرار نہیں دیا جائے گا‘‘ بعض کہتے ہیں کہ وہ حجت تو ہے لیکن اجماع نہیں ہے۔

بلا شبہ اجماع وہی معتبر ہے جو مجتہد علماء نے کیا ہو لیکن اگر وہ اپنی بدعت کی طرف دینے والے خارجی یا رافضی ہوں تو جمہور کے نزدیک وہ ان لوگوں میں شامل نہ ہوں گے جن کا اجماع معتبر ہے۔ بعض فقہاء کا کہنا یہ ہے کہ اجماع کے منعقد ہونے کی شرط یہ ہے کہ اجماع کرنے والے سب لوگ گزر جائیں یعنی وفات پا جائیں، لیکن صحیح بات یہ ہے اور یہی اکثر فقہاء کی رائے ہے کہ یہ کوئی شرط نہیں ہے۔

 مصلحت ( جس کی جمع مصالح ہے) کے لفظی معنی فائدہ اور منفعت کے ہیں اور فقہاء کی اصطلاح میں اس سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کوفائدہ پہنچا کر اور ان سے نقصان کو دفع کر کے ان کے دین، جان، عقل، نسل اور مال کی حفاظت کی جائے۔

٭۔شریعت کے احکام میں مصلحت کا لحاظ:  یہ بات قطعی طور پر ہر شخص کو معلوم ہے اور اس بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ شریعت کے سب احکام لوگوں کے مصالح پر مشتمل ہیں چاہے دنیا و آخرت میں فوائد بہم پہنچا کر اور چاہے ان سے نقصانات کو دفع کر کے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

“وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ”

“اور ہم نے آپ ﷺ کو جہانوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے”

“یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء تْکُم مَّوْعِظَۃٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَشِفَاء  لِّمَا فِیْ الصُّدُورِ وَہُدًی وَرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ”

“اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت، سینوں کی بیماریوں کے لیے شفا اور اہل ایمان کے لیے ہدایت و رحمت آئی ہے”

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

“بعثت لاتمم حسن الاخلاق”

” مجھے اعلی اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے”وغیرہ

شریعت کے احکام میں جو مصالحت ہے، اس کا ادراک سلیم الطبع انسان کی عقل از خود کر لیتی ہے اور اگر بعض لوگوں کی عقل اس کا ادراک نہیں کرتی تو یہ ان کی اپنی عقل کا قصور ہے یا اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگ اسلامی تعلیمات سے ہٹ کر کسی غیر اخلاقی سو سائٹی کی اقدار سے متاثر و مرعوب ہوتے ہیں۔

   مصالح مرسلہ کی تین ہی قسمیں ہیں:پہلی قسم معتبر مصالح کی ہے اور ان سے مراد وہ مصالح ہیں جن کے معتبر یعنی حقیقی اور صحیح ہونے کا پتہ شریعت سے چلتا ہے۔ ان کے تحت وہ سب مصالح آتے ہیں جن کو بروئے کار لانے اور ان تک پہنچنے کے لیے شریعت نے احکام مقرر کیے جیسا کہ اس نے جہاد کا حکم دیا تاکہ دین کی حفاظت کی جائے، قصاص کا حکم دیا تاکہ نسل کی حفاظت کی جائے اور چوری پر ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تاکہ مال کی حفاظت کی جائے۔

 دوسری قسم لغو قرار دئیے گئے مصالح کی ہے اور ان سے مراد وہ تمام مصالح ہیں جن کے غلط یا غیر حقیقی ہونے کا شریعت کے احکام سے پتہ چلتا ہے۔ ایسے مصالح کا کوئی اعتبار نہیں ہے جیسے یہ مصلحت کہ وراثت میں مرد اور عورت کو برابر حصہ دیا جائے یا شراب کی تجارت سے مالی فائدہ اٹھایا جائے یا جہاد سے کنارہ کشی اختیار کر کے گوشہ عافیت میں بیٹھا جائے۔

 تیسری قسم ان مصالح کی ہے جن کے معتبر یا لغو ہونے کا شرعی احکام سے پتہ نہ چلے، اس معنی میں نہیں کہ شریعت نے ان کے معتبر یا لغو ہونے کو بتایا نہیں کیونکہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اس معنی میں کہ یہ معلوم کرنے میں دقت پیش آئے کہ انہیں معتبر مصالح کے دائرہ میں شامل کیا جائے یا لغو مصالح کے دائرہ میں۔ جیسے یہ مصلحت کے کاریگروں سے چیزوں کو ٹھیک رکھنے کی ضمانت لی جائے، ایک آدمی کو کئی لوگ مل کر قتل کردیں تو اس کے بدلے میں ان سب کو قتل کیا جائے، انتظامی امور کے لیے دفاتر قائم کیے جائیں، جیلیں بنائی جائیں اور باہم خریدو فروخت کے لیے سکے جاری کیے جائیںوغیرہ۔ انہیں معتبر یا لغو مصالح کے دائرہ میں شامل کرنا اجتہاد کے تحت آتا ہے۔

  اس بارے میں فقہاء کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر مصالح مرسلہ شریعت کے مقاصد سے مطابقت رکھتے ہوں اور اس کے کسی حکم سے متصادم نہ ہوں تو انہیں معتبر مصالح کے دائرہ میں شامل کرنا ضروری ہے، البتہ ان کے مابین اختلاف اس بارے میں ہے کہ انہیں کسی حد تک اختیار کیا جائے۔ اس کی تفصیل یہ ہے: انہی سب سے کم اختیار کرنے والے ظاہر یہ ہیں کیونکہ وہ نصوص کے پابند ہیں اور نصوص پر قیاس تک کا انکار کرتے ہیں، اس لیے وہ یہ فرض ہی نہیں کرتے کہ نصوص سے باہر بھی کوئی مصلحت پائی جاسکتی ہے۔

ظاہریہ سے زیادہ انہیں اختیار کرنے والے شافعیہ ہیں کیونکہ وہ اگرچہ قیاس کے قائل ہیں لیکن ان کے نزدیک علت۔ جو قیاس کی بنیاد ہے، کا منضبط ہونا ضروری ہے۔ اس لیے وہ صرف ان ہی مصالح کو لیتے ہیں جن کی اجازت قیاس دیتا ہو۔

حنفیہ سے زیادہ انہیں اختیار کرنے والے حنبلیہ ہیں کیونکہ ان کے نزدیک قیاس کی علت منضبط نہیں بلکہ غیر منضبط مناسب وصف ہے یعنی حکمت یا مصلحت۔ اس لیے جہاں بھی کوئی مصلحت مرسلہ شریعت کے مزاج سے مطابقت رکھتی ہوئی نظر آتی ہے اور اس کا کسی نص یا اجماع یا کسی صحابی کے فتویٰ سے ٹکرائو نہیں ہوتا، وہ اسے معتبر مانتے اور اس پر عمل کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اسے قیاس کے دائرہ سے باہر نہیں جاتے دیتے بلکہ اسے قیاس سے مربوط رکھتے ہیں ۔

فقہا میں سب سے زیادہ مصالح مرسلہ کو اختیار کرنے والے مالکیہ ہیں یہاں تک کہ انہوں نے ان کو فقہی احکام کا ایک مستقل بالذات ماخذ شمار کیاہے۔

 استصحاب کے لفظی معنی صحبت (ساتھ) طلب کرنے یا صحبت کے باقی رہنے کے ہیں اور اصطلاح میں اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی حکم جیسا تھا اسے ویسا ہی سمجھا جائے تا آنکہ اس میں تبدیلی کی دلیل مل جائے۔ چنانچہ اگر کوئی چیز مباح تھی تو وہ مباح رہے تآنکہ اس کے حرام ہونے کی دلیل مل جائے اور اگر وہ حرام تھی تو حرام رہے تآنکہ اس کے مباح ہونے کی دلیل مل جائے۔

مذکور ہ معنی میں استصحاب فقہ کا سب سے کمزور مآخذ ہے اس لیے کسی مسئلہ میں اس سے استدلال اسی صورت میں کیا جائے گا جب اس مسئلہ میں انتہائی تلاش کے باوجود کتاب و سنت، اجماع،اقوال صحابہ اور قیاس سے کوئی دلیل نہ ملے۔ اسے اختیار کرنے پر ائمہ اربعہ اور ظاہر یہ سب کا اتفاق ہے اگرچہ انکے درمیان اختلاف اس کی مقدار میں ہے یعنی یہ کہ اسے کس حد تک اختیار کیا جائے اور کس حد تک اختیار نہ کیا جائے۔اسے سب سے زیادہ اختیار کرنے والے ظاہریہ ہیں، پھر شافعیہ اور حنبلیہ اور پھر حنفیہ اور مالکیہ۔ اس کا انحصار اس پر ہے کہ جن فقہاء نے قیاس اور استحسان کا استعمال کم کیا اور اپنے آپ کو کتاب و سنت اور اجماع ہی کا پابند رکھا، جیسے ظاہر یہ تو انہوں نے دوسروں کی بہ نسبت استصحاب پر زیادہ اعتماد کیا اور جن فقہاء نے قیاس و استحسان کو اختیار کرنے میں توسیع دکھائی جیسے حنفیہ اور مالکیہ، تو ان کا استصحاب پر اعتماد کم رہا اور جو لوگ اس بارے میں درمیانے رہے جیسے شافعیہ اور حنبلیہ، تو وہ استصحاب پر اعتماد کرنے میں بھی درمیانے رہے۔

 مادہ جھد فتح یفتح بمعنی کوشش کرنا، طاقت لگانا سمع یسمع بمعنٰی زندگی کا مکدر ہونااور اجتھدکا معنی پوری کوشش کرنا اور یہ لفظ اجتھاد افتعال کے وزن پر ہے، اصطلاحی مفہوم: علامہ حنیف ندویؒ کے بقول :کسی حکم شرعی کو معلوم کرنے کے لیے فکر واستنباط کی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کا نام اجتھاد ہے یا کتاب و سنت کی روشنی میں کسی پیش آمدہ مسئلے کا شرعی حکم معلوم کرنے کے لئے جو محنت اور طاقت صرف کی جاتی ہے اسکا نام اجتھاد ہے اوراجتھاد کرنے والے کو مجتھد کہا جاتا ہے۔ 

(1) مجتہد کی نیت اور عقیدہ ٹھیک ہو اور وہ کسی شخص یا گروہ کے کے بیجا تعصب میں مبتلا نہ ہو (2) کتاب و سنت کے نصوص کا کامل علم ہو (3) مسائل اجماعیہ سے واقفیت (4) علوم لسانی پر عبور (5) اصول فقہ پر نظر(6) ناسخ ومنسوخ کا علم ہو (7) مجتھد جدید طرز زندگی سے بھی آگاہ ہو(8) مجتھد غیر معمولی ذہنی سلجھاو رکھتا ہو(9) صحابہ کرام تابعین عظام اور بعد  کے فقہا ء کے مابین اختلافی مسائل وغیرہ کا علم ہو (10) اسے شریعت کے مقاصد اسکے احکام کی علتوں اور ان کے پیچھے کار فرما حکمتوں کا علم ہو۔

قرآن سے اجتھاد کا ثبوت :

(1)”وَالَّذِیْنَ جَاھدُوا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْن ( العنکبوت:69)

(2)وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوہَکُمْ شَطْرَہُ (البقرہ:150)

(1) حضرت معاذ بن جبل کا یمن کے گورنر بننے کا واقعہ

(2) اذا حکم الحاکم فاجتھد ثم ا صاب فلہ اجران  واذا حکم فاجتھد ثم اخطا فلہ اجر۔

(1)اجتھادفی الشرع(2)مجتھد مستقل (3)مجتھد منتسب (4) اجتھاد فی المذہب (5) اجتھاد فی المسائل۔

دو ہیں (1) جن مسائل کا حل موجود نہیں ان کا حل دریافت کرنا(2) جن مسا ئل کا حل موجود ہے ان کا موقع محل متعین کرنا۔

جن مسائل میں شرع کی قطعی نصوص نہ ہوں وہاں اجتھاد کی ضرورت ہے۔

حضرت معاذؓ سے یہ طریقہ سمجھ میں آتاہے کہ مسئلہ کو پہلے : قرآن، حدیث، اجماع اورپھر قیاس سے دیکھا جائے گا۔

حنفیوں، مالکیوں اور شافعیوں کے نزدیک اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے، حالانکہ شرع میں کوئی ایسی چیز نہیں آئی جو اجتہاد کو جگہ یا زمانہ کے ساتھ مقید کر دے۔

اجتہاد کی اہمیت کو حسب ذیل نکات سے سمجھا جاسکتا ہے :1۔ قرآن نے اجتہاد کا کہا ہے، 2۔ احادیث میں مجتہد کے لئے ثواب بیان کیا گیا ہے،3۔ نبی ﷺ نے خود بعض مسائل میں اجتہاد کیا۔ 4۔ صحابہ کرام نے اجتہاد کیا،5۔ تابعین اور فقہائے امت نے اجتہاد کیا، 6۔ معاشرتی وعلمی ارتقاء اجتہاد کا متقاضی ہے، 7۔ شریعت اسلامیہ میں آخری شریعت ہونے کا سبب مسائل کا حل اجتہاد ہے،8۔ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہونے میں اجتہاد کا اہم کردار ہے،9۔ تیز ترین وہمہ گیر ترقی کے جدید دور کے لاتعداد مسائل کا حل اجتہاد ہے۔

۔”الخراج بالضمان”

“فائدہ ضمانت کی وجہ سے ہے “

2۔”لاضرر ولاضرار”

“نہ نقصان اٹھاو اور نہ کسی کو نقصان میں مبتلا کرو”

3۔”لیس لعرق ظالم حق”

“ظالم کی جڑ کے لئے کوئی حق نہیں ہے”

4۔”البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر”

“دلیل مدعی پر ہے اور قسم انکار کرنے والے پر ہے”

5۔”کل معروف صدقۃ”

“ہر نیکی صدقہ ہے “

6۔”الزعیم غارم”

“ضمانت دینے والا چٹی بھرے گا”

7۔”انما الولاء لمن اعتق “

“ولاء صرف اسی کے لئے ہے جس نے غلام آزاد کیا “

8۔”الولد للفراش وللعاہر حجر”

“بچہ صاحب فراش کے لئے ہے اور زانی کے لئے پتھر ہیں”

9۔”البیعان بالخیار مالم یتفرقا”

“دو بیع کرنے والوں کوجدا ہونے تک اختیار ہے “

10۔”من وقع فی الشبہات وقع فی الحرام”

“جو شبہات میں واقع ہو گا وہ حرام میں واقع ہو جائے گا”

11۔”من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ”

“بے مقصد اشیاء کو چھوڑ دینا آدمی کے اسلام کی خوبی سے ہے “

12۔”الیقین لایزول بالشک”

“یقین شک کے ساتھ زائل نہیں ہوتا “

13۔”المشقۃ تجلب التیسیر”

“مشقت آسانی لاتی ہے”

14۔”الاجتھاد لاینقض بالاجتھاد”

“اجتہاد اجتہاد کے ذریعے نہیں ٹوٹتا “

15۔”اذا اجتمع الحلال والحرام غلب الحرام”

“جب حلال و حرام جمع ہو جائیں تو حرام کو ترجیح دی جائے گی”

16۔الایثار فی القر ب مکروہ وفی غیرھا محبوب”

“قرب وعبادت کے کاموں میں ایثار کرنا مکروہ ہے جبکہ اس کے علاوہ دوسرے کاموں میں پسندیدہ ہے”

17۔”الحدود تسقط بالشبھات”

“شبہات سے حدود ساقط ہو جاتی ہیں”

18۔”الفرض افضل من النفل”

“فرض نفل سے افضل ہے”

19۔”ما حرم اخذہ حرم اعطائہ”

“جس کا لینا حرام ہے اس کا دینا بھی حرام ہے”

20۔”الواجب لایترک الالواجب”

“واجب صرف کسی واجب کے لئے ہی چھوڑا جا سکتا ہے “

21۔”الضرورات تبیح المحظورات”

“ضرورتیں ممنوعہ افعال کو مباح کر دیتی ہیں”

22۔”الخروج من الخلاف مستحب”

“اختلاف سے نکلنا مستحب ہے”

23۔”الرخص لاتناط بالمعاصی”

“رخصتیں گناہوں کے ساتھ معلل نہیں ہوتیں”

24۔”الضرورۃ تقدر بقدرھا”

“ضرورت کا اس کی مقدار کے مطابق اندازہ کیا جائے گا “

25۔”الاصل براء ۃ الذمۃ”

“اصل میں انسان تمام ذمہ داریوں سے بری ہے”

Toggle Content